مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کا بیان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت
حدیث نمبر: 7
‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (15) و مسلم (44/ 70)»

قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے نفس سے زیادہ`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]

تشریح:
اس روایت میں دو سندیں ہیں۔ پہلی سند میں حضرت امام کے استاد یعقوب بن ابراہیم ہیں اور دوسری سند میں آدم بن ابی ایاس ہیں۔ تحویل کی صورت اس لیے اختیار نہیں کی کہ ہر دو سندیں حضرت انس رضی اللہ عنہ پر جا کر مل جاتی ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان روایات میں جس محبت کا مطالبہ ہے وہ محبت طبعی مراد ہے کیونکہ حدیث میں والد اور ولد سے مقابلہ ہے اور ان سے انسان کو محبت طبعی ہی ہوتی ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت طبعی اس درجہ میں مطلوب ہے کہ وہاں تک کسی کی بھی محبت کی رسائی نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے نفس تک کی بھی محبت نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 15   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]

فہم الحدیث:
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے اور جب تک کائنات کی ہر چیز حتی کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ سے محبت نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔
ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ مجھے میری جان کے سوا سب سے پیارے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمر! جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی پیارا نہ ہو جاؤں۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب آپ مجھے میری جان سے بھی پیارے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب بات بنی۔ [صحيح بخاري 6632]
شیخ ابن عثیمین رحمه الله نے تمام علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا جز ہے اور جس کے دل میں جتنی محبت کم ہو گی اس کا اتنا ہی ایمان بھی کم ہو گا۔ [القول المفيد شرح كتاب التوحيد]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 27   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 7  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے باپ، بیٹے اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 7]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 15]،
[صحيح مسلم 168]

فقہ الحدیث
➊ یہاں «لايؤمن» میں نفی کمال مراد ہے، جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے، مثلاً بعض غلط کار اور ظالم آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ «فلان ليس بإنسان» فلاں تو انسان (ہی) نہیں ہے۔ ديكهئے: [مرعاة المصابيح 49/1]
تنبیہ: «لا» اگر اسم نکرہ پر ہو اور اسے آخر میں نصب (یعنی زبر) دے تو یہ «لا» نفی جنس ہوتا ہے۔ دیکھئے: [قطرالندي وبل الصدى ص 229]، [والكافية فى النحو ص115]، [المنصوب بلاالتى لنفي الجنس]
مثلاً حدیث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب» [صحيح بخاري: 756] میں «لا» نفی جنس ہے، «لا» جب نفی جنس ہو تو پوری جنس کی نفی مراد ہوتی ہے الا یہ کہ صحیح دلیل سے تخصیص و استثناء ثابت ہو جائے۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا رکن ایمان ہے، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کی جائے، تب ہی ایمان مکمل ہو سکتا ہے، جیسا کہ «الأن يا عمر!» [صحيح البخاري: 6632] وغیرہ دلائل سے ثابت ہے۔
➌ والد، والدہ اور اولاد سے انسان کی محبت عام طور پر سب سے زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام رشتہ داروں، دوستوں اور پیاروں سے زیادہ محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنی چاہئے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے۔
➍ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دس سال کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر بیس سال تھی، آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 2286 حدیثیں بیان کی ہیں، جن میں 168 بخاری و مسلم میں ہیں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے دعا فرمائی:
«اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيه»
اے اللہ! اس کا مال اور اولاد زیادہ کر اور ان میں اسے برکت دے۔ [صحيح مسلم: 2481، صحيح البخاري: 6378، 6379]
یہ دعا من و عن پوری ہوئی۔ آپ کے پوتے پوتیاں سو کے قریب تھے۔ «رضي الله عنه»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 7   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث67  
´ایمان کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 67]
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے جس قدر محبت پختہ ہو گی، اسی قدر ایمان بھی زیادہ ہو گا۔
محبت میں کمی بیشی ایمان میں کمی بیشی کی دلیل ہے۔

(2)
محبت کا معیار زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي﴾ (آل عمران: 31)
 کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔

(3)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسروں سے زیادہ ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب اولاد کی محبت، والدین کی محبت یا کسی بزرگ یا دوست کی محبت کسی ایسے کام کا تقاضا کرے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ ہو گی تو دوسروں کی ناراضی کی پروا نہیں ہو گی بلکہ انسان دوسروں کو ناراض کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اسوہ پر عمل کرے گا، اگر دوسروں کی محبت زیادہ ہو گی تو شریعت کی مخالفت کا ارتکاب کر کے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ایمان کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہے۔
اسی طرح قوم اور قبیلہ کے رسم و رواج کی بھی یہی حیثیت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 67