مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کا بیان

ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟
حدیث نمبر: 20
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ كَذبَنِي ابْن آدم وَلم يكن لَهُ ذَلِك وَشَتَمَنِي وَلم يكن لَهُ ذَلِك أما تَكْذِيبه إيَّايَ أَن يَقُول إِنِّي لن أُعِيدهُ كَمَا بَدأته وَأما شَتمه إيَّايَ أَن يَقُول اتخذ الله ولدا وَأَنا الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يكن لي كُفؤًا أحد (لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفؤًا أحد) ‏‏‏‏كُفؤًا وكفيئا وكفاء وَاحِد ‏‏‏‏ . رواه البخاري
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم نے میری تکذیب کی حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں، اور اس نے مجھے برا بھلا کہا، حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں تھا۔ رہا اس کا مجھے جھٹلانا، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیسے اس نے شروع میں مجھے پیدا کیا تھا، حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا میرے لیے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں؟ اور رہا اس کا مجھے برا بھلا کہنا، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے: اللہ کی اولاد ہے، حالانکہ میں یکتا، بے نیاز ہوں جس کی اولاد ہے نہ والدین اور نہ کوئی میرا ہم سر ہے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (4974، 4975)»

قال الشيخ الألباني: صَحِيحٌ