مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کا بیان

ایمان کی علامت کیا ہے؟
حدیث نمبر: 45
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْإِيمَانُ قَالَ إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا الْإِثْمُ قَالَ إِذَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ» . رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا، ایمان کیا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تیری نیکی تجھے خوش کر دے اور تیری برائی تجھے غمگین کر دے تو، تو مومن ہے۔ اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! تو گناہ کیا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکے تو اسے چھوڑ دو۔ اس حدیث کو احمد نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (5/ 251 ح 22519) [وصححه ابن حبان (الموارد: 103) و الحاکم علٰي شرط الشيخين (1/ 14) ووافقه الذهبي.]»

قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 45  
´ایمان کی علامت کیا ہے؟ `
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْإِيمَانُ قَالَ إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا الْإِثْمُ قَالَ إِذَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ» . . .»
. . . سیدنا ابواسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تیری نیکی تجھے اچھی معلوم ہو اور تیری برائی تجھ کو بری نظر آئے تب تم مومن ہو۔ پھر اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! گناہ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شک و شبہ والی چیز تمہارے دل میں کھٹکے، دکھڑ پکڑ کرے اور تمہارے دل میں تردد پیدا کرے تو اسے چھوڑ دو . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 45]

تحقیق و تخریج:
صحیح ہے۔
◈ اسے ابن حبان [الاحسان: 176، الموارد: 103] حاکم [المستدرک 99/4، 13/2، 14/1] بیہقی [شعب الایمان: 6991، 6990، 5746] ابن مندہ [کتاب الایمان: 1088] قاضی محمد بن سلامہ القضاعی [مسند الشہاب: 402] عبدالرزاق [المصنف: 20104 نسخہ جدیدہ20273] اور طبرانی [المعجم الکبیر: 7539، المعجم الاوسط: 3107] نے یحییٰ بن ابی کثیر زید بن سلام عن ابی سلام (ممطور) عن ابی امامہ (رضی اللہ عنہ) کی سند سے روایت کیا ہے۔
◈ یحییٰ بن ابی کثیر ثقہ ثبت ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی تھے۔ ديكهئے ميري كتاب: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين2/63]
◈ دارقطنی نے فرمایا:
«معروف بالتدليس»
آپ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں۔ [العلل الواردة 124/11 سوال: 2163]
◈ زید بن سلام کے بھائی اور ممطور ابوسلام کے پوتے معاویہ بن سلام (ثقہ) نے کہا:
یحییٰ بن ابی کثیر نے مجھ سے میرے بھائی زید بن سلام کی کتاب لی تھی۔ [تاريخ ابي زرعه الدمشقي: 809وسنده صحيح]
◈ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
«لم يلق يحييٰ بن أبى كثير زيد بن سلام، وقدم معاوية بن سلام عليهم، فلم يسمع يحيي بن أبى كثير، أخذ كتابه عن أخيه ولم يسمعه، فدلسه عنه»
یحییٰ بن ابی کثیر نے زید بن سلام سے ملاقات نہیں کی۔ معاویہ بن سلام ان کے پاس آئے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے (زید بن سلام سے) نہیں سنا، اس کی کتاب اس کے بھائی سے لے لی اور اس سے کچھ نہیں سنا پھر اس سے تدلیس کی۔ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3983]
معلوم ہوا کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے زید بن سلام سے کچھ نہیں سنا، بلکہ ان کی کتاب سے روایت کرتے تھے۔ کتاب سے روایت کرنا قول راجح میں صحیح ہے، بشرطیکہ کتاب کی سند میں طعن ثابت نہ ہو۔ یہاں تو واسطہ بین الکتاب ثقہ ہے، لہٰذا یہ روایت زید بن سلام سے ثابت ہے اور باقی سند صحیح ہے۔ اس روایت کے صحیح مسلم [2553] اور سنن الترمذی [2165 وقال: حسن صحيح غريب] وغیرہما میں شواہد بھی ہیں۔

فقہ الحدیث
➊ طیبی شارح مشکوٰۃ کہتے ہیں کہ اگر آپ نیکی کر کے خوش ہوں کہ اس پر ثواب ملے گا اور گناہ کے بعد پریشان ہو جائیں (کہ اس پر عذاب ملے گا) تو یہ اللہ اور قیامت پر ایمان لانے کی علامت ہے۔ [مرعاة المفاتيح 1؍116، الكاشف عن حقائق السنن للطيبي 1؍192]
➋ اس حدیث میں «فأنت مؤمن» پس تم مؤمن ہو، سے مراد کامل الایمان ہے۔
➌ جن کاموں کی واضح حرمت شریعت میں مذکور نہیں ہے، لیکن ان کی حلت و حرمت میں شک رہتا ہے تو ایسے تمام مشکوک امور سے مکمل اجتناب کرنا ایمان کی علامت ہے۔
➍ جو امور شریعت مطہرہ سے ثابت ہیں، ان پر عمل کرنا باعث ثواب اور ایمان کی علامت ہے، چاہے دل پسند کرے یا نہ کرے۔
➎ جس طرح انسان میٹھی چیزوں کو پسند اور کڑوی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کی دلی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ نیکیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ رہے منافقین، کفار اور گناہ گار لوگ تو یہ نیکیوں سے دوری اور برائیوں سے قربت و محبت اختیار کر تے ہیں۔ اس طرح دل پر سیاہ دھبے لگتے جاتے ہیں حتٰی کہ ایک دن سارا دل ہی سیاہ ہو کر اپنے رب کا مکمل نافرمان بن جاتا ہے۔ یہی لوگ دنیا و آخرت میں سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 45