صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
18. بَابُ الْوَصَاةِ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:
باب: کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5022
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى،" أَوْصَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أُمِرُوا بِهَا وَلَمْ يُوصِ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے، کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا، کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا نبی کریم نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا: پھر لوگوں پر وصیت کیسے فرض کی گئی کہ مسلمانوں کو تو وصیت کا حکم ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2696  
´کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
سائل کا سوال خلافت کی وصیت کے بارے میں تھا۔
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ رسو ل اللہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں فرمائی۔

(2)
سائل کا دوسرا سوال ایک اشکال کا اظہار ہے کہ رسول اللہﷺ نے عام مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ہے تو خود بھی وصیت کی ہوگی، خصوصاً خلافت جیسے اہم معاملے میں ضرور فرمایا ہوگا کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہوگا تو جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے پورے قرآن پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔
جس میں یہ حکم بھی ہے:
﴿وَاُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾  (النساء4؍59)
  تم (مسلمانوں)
میں سے جوصاحب امر ہوں ان کا حکم مانو۔

(2)
حضرت ابوبکر ؓ کی سیرت مبارکہ کا سب سے اہم پہلو اتباع رسول اللہﷺ ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نبئ کریمﷺ حضرت علی ؓ کو خلیفہ متعین فرمائیں اور حضرت ابوبکر﷜ خود یہ منصب سنبھال لیں، بلکہ وہ تو رسول اللہﷺ کے مقرر کئے ہوئے خلیفے کے اطاعت میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2696   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2119  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (کوئی مالی) وصیت نہیں کی۔`
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفی نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2119]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا،
اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے،
بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے،
ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفیٰ نے بیان کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2119   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5022  
5022. سیدنا طلحہ بن مصرف سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سوال کیا: آیا نبی ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں میں نے عرض کی: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا؟ لوگوں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خود آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5022]
حدیث حاشیہ:
وصیت کی نفی سے مراد ہے کہ مال یا دولت یا دنیا کے امور میں یا خلافت کے باب میں کوئی وصیت نہیں کی اور اثبات سے یہ مراد ہے کہ قرآن پر عمل کرتے رہنے کی یا اس کی تعلیم یا دشمن کے ملک میں نہ جانے کی وصیت کی تو دونوں فقروں میں تناقض نہ رہے گا۔
(وحیدی)
حدیث میراث نازل ہونے کے بعد مال میں مطلق وصیت کرنا منسوخ ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5022   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5022  
5022. سیدنا طلحہ بن مصرف سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سوال کیا: آیا نبی ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں میں نے عرض کی: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا؟ لوگوں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خود آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5022]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بظاہر تناقص معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کی نفی پھر اس کا اثبات ہے لیکن اس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و دولت اور خلافت و امارت کے متعلق کوئی وصیت نہیں فرمائی البتہ قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی وصیت فرمائی تھی جو حسب ذیل ہے۔
میں تم میں دو چیز یں چھوڑے جا رہا ہوں۔
جب تک تم ان دونوں پر کاربند رہو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کر سکے گی۔
ان میں سے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
(الموطأ للإمام مالك، القدر، حدیث: 1662)
حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمان اس وصیت پر عمل کرتے رہے ان کا دنیا میں طوطی بولتا تھا اور جب اسے نظر انداز کر دیا دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔
آج بھی اس پر عمل کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5022