مشكوة المصابيح
كِتَاب الْعِلْمِ -- علم کا بیان

ریاکاری کی ہلاکتیں
حدیث نمبر: 205
‏‏‏‏وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن أول النَّاس يقْضى عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمر بِهِ فسحب على وَجهه حَتَّى ألقِي فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعلم ليقال عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ -[72]- نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روز قیامت سب سے پہلے شہید کا فیصلہ سنایا جائے گا، اسے پیش کیا جائے گا، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا اور وہ ان کا اعتراف کرے گا، پھر اللہ فرمائے گا: تو نے ان کے بدلے میں (شکر کے طور پر) کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری خاطر جہاد کیا حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا، اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا، کیونکہ تو نے داد شجاعت حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا تھا، پس وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا، اور اسے دوسروں کو سکھایا، اور قرآن کریم کی تلاوت کی، اسے بھی پیش کیا جائے گا، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، وہ ان کا اعتراف کرے گا اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا، اور میں تیری رضا کی خاطر قرآن کی تلاوت کرتا رہا، اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا، البتہ تو نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تمہیں عالم کہا جائے اور قرآن پڑھا تاکہ تمہیں قاری کہا جائے، وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور تیسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر کی جملہ اقسام سے خوب نوازا ہو گا، اسے پیش کیا جائے گا، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، وہ انہیں پہچان لے گا، تو اللہ پوچھے گا: تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے ان تمام مواقع پر جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا، خرچ کیا، اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا، تو نے تو اس لیے خرچ کیا کہ تجھے بڑا سخی کہا جائے، پس وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (152/ 1905)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 205  
´ریاکاری کی ہلاکتیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن أول النَّاس يقْضى عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمر بِهِ فسحب على وَجهه حَتَّى ألقِي فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعلم ليقال عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ - [72] - نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے شہید کا فیصلہ کیا جائے گا۔ میدان محشر میں اللہ کے سامنے لایا جائے گا ,اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا اور اس کے شکریہ میں کیا کیا؟ شہید جواب دے گا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا «كذبت» تو جھوٹ بکتا ہے (میری راہ میں میری خشنودی کے لۓ جہاد نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس لیے قتال و جہاد کیا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص کیسا بہادر اور پہلوان ہے۔ فقد «قيل» پس تو یہ کہا گیا اور دنیا میں تیری بڑی تعریف و توصیف کی گئی۔ پس حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرے قاری اور عالم کا حساب لیا جائے گا جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماۓ گا۔ «كذبت» تو جھوٹ بولتا ہے تم نے یہ کام میرے لیے نہیں کیا ہے بلکہ اس لیے کیا ہے تاکہ تجھے عالم و قاری کہا جائے۔ لہٰذا تیرا مقصد پورا ہو گیا۔ اس کو بھی منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، پھر ایک سخی کو لایا جائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری دولت اور ہر قسم کا مال دے رکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بھی اپنی نعمتوں کا پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماۓ گا۔ «كذبت» تو جھوٹ کہتا ہے بلکہ اس لیے خرچ کیا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں آدمی سخی ہے۔ تجھے یہ کہا گیا پس حکم دیا جاۓ گا, اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جاۓ گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 205]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 4923]

فقہ الحدیث:
➊ ریا (دکھاوا) ایسا بڑا گناہ ہے جو تمام نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے، لہٰذا ہر شخص کو اس سے بچنا چاہئے، چاہے عالم ہو یا مجاہد و سخی، ورنہ ہر عبادت اور ہر عمل رائیگاں و باطل ہو جائے گا۔
◄ مولانا محمد سلیمان کیلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
عمل خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب تک اس میں نیت کا اخلاص نہ ہو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ مقبول نہیں ہوتا، نمود و نمائش سے عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی اگر زید کے گھر جا کر اس کا کوئی کام کرے تو اجرت بھی اس سے اسے لینی چاہئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کام تو زید کا کرے اور اجرت عمرو سے مانگے۔ اسی طرح جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے کام کیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے مزدوری کا حقدار ہے اور جس نے کام تو کیا ہو دنیا کو خوش کرنے کے لئے اور آفرین حاصل کرنے کے لئے لیکن ثواب کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھے تو یہ بالکل باطل ہے۔۔۔ [حواشي مشكوٰة ج1 ص245، 246 ح196]
➋ اعمال صالحہ کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ضروری ہیں:
اول:
صرف اللہ کی رضامندی کے لئے پورے خلوص کے ساتھ عمل کیا جائے۔
دوم:
کتاب و سنت کے مطابق عمل ہو اور ہر قسم کی بدعات سے بچا جائے۔
➌ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (یعنی قتل) کے مقدمات کا فیصلہ ہو گا۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 6533، صحيح مسلم: 1678]
◄ ان روایات کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ ریا اور دکھاوے والوں میں سب سے پہلے مقتول، عالم اور سخی مالدار کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا، مظالم میں سب سے پہلے قتل کے فیصلے ہوں گے اور عبادات میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 205