صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
27. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ بَأْسًا أَنْ يَقُولَ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَسُورَةُ كَذَا وَكَذَا:
باب: جن کے نزدیک سورۃ البقرہ یا فلاں فلاں سورت (نام کے ساتھ) کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر: 5040
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مَنْ قَرَأَ بِهِمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علقمہ اور عبدالرحمٰن بن یزید نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ کے آخر کی دو آیتوں کو جو شخص رات میں پڑھ لے گا وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1368  
´تہجد (قیام اللیل) کے بدلے کس عمل کے کافی ہونے کی امید کی جاتی ہے؟`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ البقرہ کی آخر کی دو آیتیں جو رات میں پڑھے گا، تو وہ دونوں آیتیں اس کو کافی ہوں گی ۱؎۔ حفص نے اپنی حدیث میں کہا کہ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی وہ طواف کر رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1368]
اردو حاشہ:
فائدہ:
کافی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جس کو تہجد کا وقت نہ ملا۔
وہ کم از کم یہ دو آیتیں ہی تلاوت کرلے۔
تو اسے اللہ کی وہ رحمت حاصل ہوجائےگی۔
جوتہجد پڑھنے والے کوحاصل ہوتی ہے۔
یا یہ مطلب ہے کہ پریشانیوں اور آفات سے بچاؤ کےلئے کافی ہوں گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1368   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2881  
´سورۃ البقرہ کی آخری آیات کی فضیلت کا بیان۔`
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رات میں سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہو گئیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2881]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی یہ دونوں آیتیں ہر برائی اور شیطان کے شر سے اس کی حفاظت کریں گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2881   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1397  
´قرآن کے حصے اور پارے مقرر کرنے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے کسی رات میں سورۃ البقرہ کے آخر کی دو آیتیں پڑھیں تو یہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1397]
1397. اردو حاشیہ: سورہ بقرہ کی آخری دو آیات کا کافی ہونا یا کفایت کرنا کئی معانی کا محتمل ہے۔ مثلا قیام الیل سے کافی ہیں۔ یا شیطان اور دیگر آفات وغیرہ سے تحفظ کا باعث ہیں۔ یہ سبھی مراد ہیں۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کم سے کم یہ قراءت لمبی قراءت سے کفایت کرتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1397   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5040  
5040. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص سورہ بقرہ کی آخری دو آیات رات میں پڑھ لے گا وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5040]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں سورۃ بقرہ نام مذکور ہے یہی باب اور حدیث میں وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5040   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5040  
5040. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص سورہ بقرہ کی آخری دو آیات رات میں پڑھ لے گا وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5040]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سورۃ البقرہ کہا ہے، لہذا اس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔

حجاج بن یوسف کا بھی یہی موقف تھا کہ سورۃ البقرہ وغیرہ نہیں کہنا چاہیے، چنانچہ اس نے منیٰ میں ایک مرتبہ خطبہ دیا تو دوران خطبہ میں یہی انداز اختیار کیا۔
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے جب سنا تو انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر کے اس اسلوب کی تردید کی۔
اس میں "سورہ بقرہ" ہی استعمال کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1750)
اس امر کی متعدد علماء نے صراحت کی ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کہنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض اہل اسلام سے اس کی کراہت منقول ہے۔
(فتح الباري: 110/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5040