صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
89. بَابُ الْمَسَاجِدِ الَّتِي عَلَى طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَالْمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.:
باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی ہے۔
حدیث نمبر: 491
وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِذِي طُوًى وَيَبِيتُ حَتَّى يُصْبِحَ يُصَلِّي الصُّبْحَ حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ، وَمُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ لَيْسَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ، وَلَكِنْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ.
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ذی طویٰ میں قیام فرماتے اور رات یہیں گزارا کرتے تھے اور صبح ہوتی تو نماز فجر یہیں پڑھتے۔ مکہ جاتے ہوئے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک بڑے سے ٹیلے پر تھی۔ اس مسجد میں نہیں جواب وہاں بنی ہوئی ہے بلکہ اس سے نیچے ایک بڑا ٹیلا تھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:491  
491. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ مقام ذی طوی میں اترا کرتے اور رات یہیں گزارا کرتے تھے۔ صبح ہوتی تو نماز فجر یہیں پڑھ کر مکہ مکرمہ کو روانہ ہوتے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک بڑے ٹیلے پر تھی۔ یہ وہ جگہ نہیں جہاں آج مسجد بنی ہوئی ہے بلکہ اس کے نشیب میں بڑا ٹیلا واقع ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:491]
حدیث حاشیہ:

ساتویں منزل:
یہ منزل ذوطوی کے نام سے ذکر کی گئی ہے۔
ذوطوی مکہ مکرمہ سے تین میل سے کچھ کم فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے۔
یہ رسول اللہ ﷺ کے سفر کی آخری منزل ہے۔
آپ یہاں قیام فرماتے،پھر نماز فجر پڑھ کر مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے۔
ان روایات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک ان مقامات کی تفصیل بیان کی ہے۔
جہاں رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں نمازیں ادا کی تھیں۔
زمانہ قدیم ہی سے اکثر مقامات معدوم ہوچکے ہیں، لیکن کچھ مقامات متعین ہیں اور وہاں مساجد بنا دی گئی ہیں۔
واللہ أعلم۔

حافظ ابن حجرؒ نے علامہ بغوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جن مساجد میں رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے، ان میں سے کسی مسجد کے متعلق نماز پڑھنے کی نذر کرلی جائے تو وہ مساجد ثلاثہ کی طرح عمل کے لیے متعین ہوجائے گی، یعنی اس مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا واجب ہوجائے گا۔
(فتح الباري: 738/1)
لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ حدیث کے خلاف ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مکہ عطا فرمائی تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔
آپ نے فرمایا:
اگرتم یہیں مکہ میں نماز پڑھ لو تو تمہاری نذر پوری ہوجائے گی۔
(سنن أبي داود، الإیمان والنذور، حدیث: 3305)

امام بخاری ؒ نے یہاں ان مساجد کا ذکر کیا ہے جو مدینے سے مکہ جاتے ہوئے راستے میں آتی ہیں لیکن مدینہ منورہ میں متعدد مساجد ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی چونکہ وہ امام بخاری ؒ کی شرائط صحت پر پوری نہ اترتی تھی، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا۔
ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
مسجد قباء، مسجد فتح، مسجد قبلتین، مسجد بنی قریظہ، مسجد شمس، مسجد اجابہ، مسجد مشربہ ام ابراہیم اور مسجد بغلہ وغیرہ۔
ان کے علاوہ بعض مساجد ایسی بھی ہیں جن کا آج نام ونشان تک نہیں۔
اب ان کاتذکرہ صرف کتابوں میں ملتا ہے۔
(فتح الباري: 738/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 491