صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
1. بَابُ التَّرْغِيبُ فِي النِّكَاحِ:
باب: نکاح کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5064
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى:وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا سورة النساء آية 3، قَالَتْ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَيَرْغَبُ فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا، يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ صَدَاقِهَا، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ فَيُكْمِلُوا الصَّدَاقَ، وَأُمِرُوا بِنِكَاحِ مَنْ سِوَاهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے حسان بن ابراہیم سے سنا، انہوں نے یونس بن یزید ایلی سے، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع فإن خفتم أن لا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ذلك أدنى أن لا تعولوا‏» کے متعلق پوچھا اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں سے انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو۔ دو دو سے، خواہ تین تین سے، خواہ چار چار سے، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو، اس صورت میں قوی امید ہے کہ تم ظلم و زیادتی نہ کر سکو گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! آیت میں ایسی یتیم مالدار لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو۔ وہ لڑکی کے مال اور اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہو اور اس سے معمولی مہر پر شادی کرنا چاہتا ہو تو ایسے شخص کو اس آیت میں ایسی لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر اس کے ساتھ انصاف کر سکتا ہو اور پورا مہر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اجازت ہے، ورنہ ایسے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اپنی پرورش میں یتیم لڑکیوں کے سوا اور دوسری لڑکیوں سے شادی کر لیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5064  
5064. سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ ا‬للہ تعالٰی کےاس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو، خواہ تین تین، خواہ چار چار سے تم نکاح کرلو۔ اگر تمہیں خطرہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا لونڈی جو تمہاری ملکیت میں ہو۔ اس صورت میں قوی امید ہے کہ تم ظلم و زیادتی نہیں کرو گے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اے بھانجے! آیت کریمہ میں ایسی یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے سر پرست کی پرورش میں ہو اور وہ اس کے مال و متاع اور حسن و جمال کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہو اور اس سے معمولی حق مہر کے بدلے شادی چاہتا ہو تو آیت کریمہ میں ایسے شخص کو یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں، اگر اس کے ساتھ انصاف کرسکتا ہو اور پورا حق مہر دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5064]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس آیت میں یہ جو فرمایا اگر تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان سے نکاح کرلو تو عروہ نے اس کا مطلب پوچھا کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرنے کا کیا مطلب ہے اور ﴿فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنْ النِّسَاءِ﴾ (النساء: 3)
یعنی جزا کو شرط ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ﴾ (النساء: 3)
سے کیا تعلق ہے یہ آیت سورۃ نساء میں ہے اور یہ حدیث اس سورت کی تفسیر میں ہی گزر چکی ہے۔
عروہ کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے یہ تقریر فرمائی جو حدیث میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5064   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5064  
5064. سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ ا‬للہ تعالٰی کےاس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو، خواہ تین تین، خواہ چار چار سے تم نکاح کرلو۔ اگر تمہیں خطرہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا لونڈی جو تمہاری ملکیت میں ہو۔ اس صورت میں قوی امید ہے کہ تم ظلم و زیادتی نہیں کرو گے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اے بھانجے! آیت کریمہ میں ایسی یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے سر پرست کی پرورش میں ہو اور وہ اس کے مال و متاع اور حسن و جمال کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہو اور اس سے معمولی حق مہر کے بدلے شادی چاہتا ہو تو آیت کریمہ میں ایسے شخص کو یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں، اگر اس کے ساتھ انصاف کرسکتا ہو اور پورا حق مہر دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5064]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حق مہر پورا دینے کی نیت سے نکاح کرنے کی ترغیب ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ کی حفاظت، نسل کی ضمانت اور نو مولود کی سفارش کی توقع ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ناتمام بچہ بھی اپنے والدین کی اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کرے گا۔
(2)
بہر حال نکاح بظاہر دنیوی معاملہ نظر آتا ہے لیکن جب مصالح اور اغراض دینیہ پر غور کیا جاتا ہے تو اس کا تعلق امور دینیہ اور عبادت سے ہے۔
ایک حدیث میں ہے:
تم ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی ہوں کیونکہ میں قیامت کے دن امت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔
(مسند أحمد: 245/3)
اس حدیث میں صیغۂ امر موجود ہے جس کا ادنیٰ مرتبہ استحباب ہے اور اگر شہوت کے غلبے کی وجہ سے بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا ضروری ہے۔
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5064