صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
4. بَابُ كَثْرَةِ النِّسَاءِ:
باب: بیک وقت کئی بیویاں رکھنے کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 5067
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جِنَازَةَ مَيْمُونَةَ بِسَرِفَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذِهِ زَوْجَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَفَعْتُمْ نَعْشَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا وَارْفُقُوا، فَإِنَّهُ كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعٌ كَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ وَلَا يَقْسِمُ لِوَاحِدَةٍ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ میں شریک تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو زور زور سے حرکت نہ دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ جنازہ کو لے کر چلنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی وفات کے وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک کی باری نہیں تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5067  
5067. حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ام المومنین سیدنا میمونہ‬ ؓ ک‬ے جنازے میں سیدنا ابن عباس ؓ کے ہمراہ تھے جو مقام سرف میں پڑھا گیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں تم جب ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ زور، زور سے حرکت دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی سے لے کر چلو، بلاشبہ نبی ﷺ کے پاس (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، ان میں سے آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک باری نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5067]
حدیث حاشیہ:
بیک وقت نو بیویوں کا رکھنا یہ خصائص نبوی میں سے ہے، امت کو صرف چار تک کی اجازت ہے جن کی باری مقرر نہیں تھی ان سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں، انہوں نے بڑھاپے کی وجہ سے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5067   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5067  
5067. حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ام المومنین سیدنا میمونہ‬ ؓ ک‬ے جنازے میں سیدنا ابن عباس ؓ کے ہمراہ تھے جو مقام سرف میں پڑھا گیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں تم جب ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ زور، زور سے حرکت دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی سے لے کر چلو، بلاشبہ نبی ﷺ کے پاس (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، ان میں سے آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک باری نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5067]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا تھا اور اسی مقام پر ان کی وفات ہوئی۔
یہ مقام مکہ مکرمہ سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت نو (9)
بیویاں تھیں، ان میں سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہما کی بڑھاپے کی وجہ سے باری مقرر نہ تھی بلکہ انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو دے دی تھی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازاوج مطہرات کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
ان کی زندگی اور موت کے بعد تکریم و تعظیم میں فرق نہیں آنا چاہیے۔
بیک وقت نو (9)
بیویاں رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔
وہ اہل ایمان کی مائیں قرار دی گئیں اور آپ کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔
امت کے افراد کو بیک وقت صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔
وہ بھی عدل و انصاف کے ساتھ مشروط ہے۔
قرآن کریم نے وضاحت کی ہے کہ اگر عدل و انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے۔
(النساء: 3) (3)
تعدد ازواج کے سلسلے میں ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد مقرر نہیں اور قرآن کریم میں جو دو، دو، تین تین اور چار چار کے الفاظ آئے ہیں وہ بطور محاورہ ہیں لیکن یہ موقف دو لحاظ سے غلط ہے:
ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہوتی تو صرف یہ الفاظ کافی تھے:
دوسری عورتوں سے شادی کر لو جو تمھیں پسند ہوں۔
چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد مقرر کر دی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان میں سے چار کا انتخاب کرلو۔
(سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1953)
حدیث کی وضاحت کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔
اس سلسلے میں تفریق یہ ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے۔
ان لوگوں کے ہاں تعدد ازواج کی اجازت ہنگامی اور جنگی حالات میں تھی، یہ حضرات مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں۔
ان کا استدلال یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اگر تمھیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔
(النساء: 129)
پھر اس سورت میں ہے:
اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔
(سورۃ النساء)
گویا پہلے تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی اسے آئندہ آیت سے ختم کر دیا گیا۔
یہ استدلال اس لیے غلط ہے کہ مذکورہ آیت میں مذکور ہے:
لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔
اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے اس سے مراد وہ امور ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں اور انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلے میں باری مقرر کرنا وغیرہ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
یا اللہ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے ایک جیسا سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2134)
امام ابو داود رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ قلبی تعلقات میں انسان بے اختیار ہوتا ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5067