صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
8. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّبَتُّلِ وَالْخِصَاءِ:
باب: مجرد رہنا اور اپنے کو نامرد بنا دینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 5074
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ:" لَقَدْ رَدَّ ذَلِكَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، وَلَوْ أَجَازَ لَهُ التَّبَتُّلَ لَاخْتَصَيْنَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو عورت سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی اپنے آپ کو خصی بنا لیتے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5074  
5074. سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی ﷺ نے سیدنا عثمان بن معظون ؓ کو عورتوں سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5074]
حدیث حاشیہ:
اسلام میں مجرد رہنے کو بہتر جاننے کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ نکاح سے بے رغبتی کر نے والے کو اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5074   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5074  
5074. سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی ﷺ نے سیدنا عثمان بن معظون ؓ کو عورتوں سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5074]
حدیث حاشیہ:
(1)
طبرانی کی روایت میں وضاحت ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول! مجھ پر تجرد کی زندگی بہت گراں ہے۔
آپ مجھے خصی ہونے کی اجازت دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ تم روزے رکھا کرو۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 38/9، رقم الحدیث: 8320)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی ہونے کی اجازت طلب کی تھی جسے راوی نے تبتل سے تعبیر کیا ہے۔
ان کا مقصد تھا کہ بنیاد ہی کو ختم کر دیا جائے تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کیونکہ وجود شہوت، تبتل کے منافی ہے، اس لیے اختصاء متعین ہے۔
اس سے ممانعت کا مقصد تکثیر نسل ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان تھوڑے رہ جائیں اور کفار کی کثرت ہو جائے۔
(فتح الباري: 149/9) (2)
بہر حال اسلام میں مجرد رہنے کو بہتر جاننے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ نکاح سے بے رغبتی کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5074