صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
10. بَابُ الثَّيِّبَاتِ:
باب: بیوہ عورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5080
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَارِبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: تَزَوَّجْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزَوَّجْتَ؟ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِلْعَذَارَى وَلِعَابِهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فَقَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے عرض کیا کہ میں نے شادی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کس سے شادی کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک عورت سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی کہ اس کے ساتھ تم کھیل کود کرتے۔ محارب نے کہا کہ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عمرو بن دینار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ہے۔ مجھ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس طرح بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5080  
5080. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: تم نےکیسی عورت سے شادی کی ہے؟ْ میں نے کہا: ایک بیوہ سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کنواری لڑکیوں کے ساتھ اٹکھلیاں کرنے سے اجتناب کرتے ہو؟ راؤی حدیث (شعبہ) نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے (شادی) کیوں نہ کی اس سے ہنسی مذاق كرتا وہ تجھ سے کھیل کود کرتی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5080]
حدیث حاشیہ:
بیوہ سے بھی نکاح جائز ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے گو کنواری سے شادی کرنا بہتر ہے۔
ہندوستان میں پہلے مسلمانوں کے یہاں بھی نکاح بیوگان کو معیوب سمجھا جاتا تھا مگر حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس رسم بد کے خلاف جہاد کیا اور اسے عملا ختم کرایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5080   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5080  
5080. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: تم نےکیسی عورت سے شادی کی ہے؟ْ میں نے کہا: ایک بیوہ سے شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کنواری لڑکیوں کے ساتھ اٹکھلیاں کرنے سے اجتناب کرتے ہو؟ راؤی حدیث (شعبہ) نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے (شادی) کیوں نہ کی اس سے ہنسی مذاق كرتا وہ تجھ سے کھیل کود کرتی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5080]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ نے شوہر دیدہ سے نکاح کا جواز ثابت کیا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کنواری سے نکاح کرنا پسند کرتے ہیں جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی دینی مصلحت ہو تو بیوہ سے نکاح کرنا راجح ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے دوسرے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! میری چھ سات بہنیں ہیں، اگر ان جیسی کسی کنواری لڑکی سے شادی کرتا تو ان کی تربیت کیسے ہوتی؟ میں نے اس لیے شوہر دیدہ کا انتخاب کیا ہے تاکہ انھیں امور خانہ داری سے آگاہ کرے اور یہ کام کوئی تجربہ کار عورت ہی سر انجام دے سکتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس وضاحت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فعل کی تحسین فرمائی۔
(2)
واضح رہے کہ برصغیر میں پہلے پہلے مسلمانوں کے ہاں بیوگان سے نکاح کرنے کو معیوب خیال جاتا تھا، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس رسم بد کے خلاف جہاد کیا اور عملاً اسے ختم کیا۔
والله المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5080