صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
13. بَابُ اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ:
باب: لونڈیوں کا رکھنا کیسا ہے۔
وَمَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا.
‏‏‏‏ اور اس شخص کا ثواب جس نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کر لی۔
حدیث نمبر: 5083
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ عِنْدَهُ وَلِيدَةٌ فَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، وَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِي فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ مَوَالِيهِ وَحَقَّ رَبِّهِ فَلَهُ أَجْرَانِ"، قَالَ الشَّعْبِيُّ: خُذْهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ قَدْ كَانَ الرَّجُلُ يَرْحَلُ فِيمَا دُونَهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْتَقَهَا ثُمَّ أَصْدَقَهَا".
ہم سے موسیٰ بن اسمٰعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوحد بن زیاد نے، کہا ہم سے صالح بن صالح ہمدانی نے، کہا ہم سے عامر شعبی نے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ نے بیان کیا اپنے والد سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس لونڈی ہو وہ اسے تعلیم دے اور خوب اچھی طرح دے، اسے ادب سکھائے اور پوری کوشش اور محنت کے ساتھ سکھائے اور اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور اہل کتاب میں سے جو شخص بھی اپنے نبی پر ایمان رکھتا ہو اور مجھ پر ایمان لائے تو اسے دوہرا ثواب ملتا ہے اور جو غلام اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے رب کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اسے دہرا ثواب ملتا ہے۔ عامر شعبی نے (اپنے شاگرد سے اس حدیث کو سنانے کے بعد کہا کہ بغیر کسی مشقت اور محنت کے اسے سیکھ لو۔ اس سے پہلے طالب علموں کو اس حدیث سے کم کے لیے بھی مدینہ تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اور ابوبکر نے بیان کیا ابوحصین سے، اس نے ابوبردہ سے، اس نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اس شخص نے باندی کو (نکاح کرنے کے لیے) آزاد کر دیا اور یہی آزادی اس کا مہر مقرر کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 97  
´علم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہو تو ایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہو گا`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور (دوسرے) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ (دونوں) کا حق ادا کرے اور (تیسرے) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 97]

تشریح:
حدیث سے باب کی مطابقت کے لیے لونڈی کا ذکر صریح موجود ہے اور بیوی کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تادیب یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ اگر علم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہو تو ایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلاف امت ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اور بے حد مشقتیں اٹھایا کرتے تھے۔ شارحین بخاری کہتے ہیں: «وانما قال هذا ليكون ذلك الحديث عنده بمنزلة عظيمة ويحفظه باهتمام بليغ فان من عادة الانسان ان الشيئي الذى يحصله من غيرمشقة لايعرف قدره ولايهتم بحفاظته» یعنی عامر نے اپنے شاگرد صالح سے یہ اس لیے کہا کہ وہ حدیث کی قدر و منزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ یاد رکھیں کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ بغیر مشقت حاصل ہونے والی چیز کی وہ قدر نہیں کرتا اور نہ پورے طور پر اس کی حفاظت کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 97   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 11  
´دوہرے اجر کے حق دار خوش نصیب`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمِهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ " . . .»
. . . سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کے لیے دوگنا ثواب ہے: اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا، وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کرتا ہو اور اپنے مالک کا بھی حق ادا کرتا ہو، وہ شخص کہ اس کے پاس باندی (لونڈی) ہے جس سے ہم بستری کرتا رہا اور اسے ادب بھی سکھاتا رہا اور اچھا ادب سکھایا اور تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسی باندی کو آزاد کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیا تو اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 11]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 97]،
[صحيح مسلم 387]

فقہ الحدیث
➊ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ ان میں سے جو شخص بھی اپنے نبی پر سچا ایمان لائے، اپنے ایمان کو شرک و کفر سے آلودہ نہ کرے اور آخری نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی صدق دل سے ایمان لے آئے تو اللہ کے ہاں اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔
➋ شریعت اسلامیہ میں جو مردوں کے احکام ہیں، وہی عورتوں کے احکام ہیں الا یہ کہ تخصیص کی کوئی واضح اور مقبول دلیل موجود ہو، اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل کتاب کی اسلام قبول کرنے والی عورتیں بھی اسی حدیث کے حکم میں شامل ہیں۔
➌ اس حدیث کی تائید قرآن مجید کی آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ»
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، وہ اپنی رحمت سے تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ [سورة الحديد: 28]،
آیت: «أُولَـئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ»
انہیں دو گنا اجر ملے گا۔ [القصص: 54] بھی اس کی مؤید ہے۔
➍ خوبصورت آواز والے سیدنا ابوموسٰی عبد اللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے ہیں۔ آپ نے تریسٹھ 63 احادیث بیان کی ہیں۔ آپ تریسٹھ سال کی عمر میں 50 یا 52 ہجری کو مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح 54/1]، [ومرقاة المصابيح 152/1]
➎ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اپنے آقا کی اطاعت کرنے والا غلام بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے۔ اس حکم میں ہر وہ شخص شامل ہے، جو کتاب و سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سربراہ اور افسر کی اطاعت کرتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی شخص کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
➏ اس حدیث میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی زبردست فضیلت کا ذکر ہے، اور یاد رہے کہ سابق حدیث (صحیح مسلم 386) سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والا جہنم میں داخل ہو گا۔
یعنی ان کی زندگی کے تمام عملوں کے اجر دوسرے لوگوں سے دو گنے ہوں گے۔ اگر دوسرے لوگوں کو دس گنا اجر ملے گا تو ان کو بیس گنا ملے گا۔ اگر ان کو سات سو گنا اجر ملے تو ان کو چودہ سو گنا ملے گا۔ پہلے آدمی کو اس لیے کہ اس نے دو شریعتوں پر عمل کیا، پہلی کے وقت بھی اس کی نیت یہ تھی کہ یہ حق ہے میں ہمیشہ اس پر قائم رہوں گا۔ بھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سامنے آ گئی تو اس پر ایمان لایا پھر اس پر عمل کرتا رہا اور آخر تک کیا۔ دوسرے کو اس لیے کہ اس نے دو مالکوں کی اطاعت کی، ایک حقیقی مالک (اللہ) کی اور دوسرے مجازی مالک کی اور تیسرے کو اس لیے دو گنا اجر ہے کہ لونڈی اسی کی تھی حقوق زوجیت اس کو پہلے بھی حاصل تھے۔ پھر اس نے لونڈی کو علم سکھایا تہذیب سے روشناس کرایا۔ پھر آزاد کر کے اس کی حیثیت عرفی میں بہت کچھ اضافہ کر دیا۔ پھر خود اس سے شادی کر کے اس کو اس گھر کی مالکہ بنا دیا جس گھر میں وہ صرف ایک خدمت گزار کی حیثیت رکھتی تھی۔ [مشكوٰة مترجم ومحشي: شيخ محمد اسماعيل سلفي رحمه الله، ج 1، ص123 طبع مكتبه نعمانيه لاهور]
➑ اس حدیث اور دیگر دلائل شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔
➒ مشکٰوۃ میں مذکور الفاظ حدیث، امام بخاری کی کتاب الادب المفرد [203] کی روایت سے مشابہ ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صاحب مشکوۃ کا رواہ البخاری یا رواہ مسلم وغیرہ کہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ ہو بہو یہ الفاظ اسی کتاب میں ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ روایت اپنے مفہوم کے ساتھ کتاب مذکور میں بایں الفاظ یا بہ اختلاف الفاظ موجود ہے۔
➓ اس حدیث سے تعلیم نسواں کا ثبوت ملتا ہے، عورتوں کو تعلیم دینا (اور لکھنا پڑھنا سکھانا) دوسرے دلائل سے بھی ثابت ہے بشرطیکہ
① یہ تعلیم کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو
② مردوں کے ساتھ عورتوں کو بٹھا کر مخلوط تعلیم نہ ہو۔
جس حدیث میں عورتوں کو لکھائی سیکھنے سے منع کیا گیا ہے وہ جعفر بن نصر العنبری (کذاب) کی وجہ سے موضوع ہے۔ دیکھیے: [الكامل لابن عدي طبعة محققة 2؍395]، [والموضوعات لابن الجوزي 268/2]
[كتاب المجروحين لابن حبان 302/2]، [و شعب الايمان للبيهقي 477/2 ح 2454]، [والموضوعات لابن الجوزي 269/2] میں اس کی ایک دوسری سند ہے جو محمد بن ابراھیم الشامی (کذاب) کی وجہ سے موضوع ہے۔ شعب الایمان [2453] میں عبدالوھاب بن الضحاک (کذاب) نے محمد بن ابراھیم الشامی کی متابعت کر رکھی ہے، اس کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں: «بل موضوع، وآفته عبدالوهاب، قال أبو حاتم: كذاب» [تلخيص المستدرك 396/2 ح 3494]
یہ موضوع روایات اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے، جس میں آیا ہے کہ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: «الا تعلمين هذه رقية النملة كما علمتيها الكتابة» کیا تو اسے پھوڑے پھنسی کا دم نہیں سکھاتی جیسا کہ تو نے اسے (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا کو) لکھنا (پڑھنا) سکھایا ہے۔ [ابوداؤد: 3887، و أحمد 372/6ح27095، والطحاوي فى معاني الآثار 326/4، وهو حديث صحيح /تلخيص نيل المقصود 777/4]
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا لکھنا پڑھنا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1956  
´آدمی لونڈی کو آزاد کرے پھر اس سے شادی کر لے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے ۱؎۔ شعبی نے صالح سے کہا: ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنا دی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہو کر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1956]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو ثواب ہونے کا مطلب دوگنا ثواب ہے کیونکہ عمل کرنے والے نے دو طرح کی نیکی کی ہے لہٰذا اس کی نیکی دوسروں کی نیکی سے زیادہ اہمیت و فضیلت رکھتی ہے۔

(2)
لونڈی غلام خدمت لینے کے لیے خریدے جاتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ان پر ایک عظیم احسان ہے پھر لونڈی کو آزاد کر دینا ایک اور احسان ہے اس کے بعد اس سے نکاح کر لینے کو اس نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ گویا آزادی کی نفی ہے بلکہ یہ احسان کی تکمیل ہے کہ لونڈی کو آزاد بیوی والے پورے حقوق حاصل ہو گئے۔

(3)
اگر ایک یہودی توحید پر قائم رہتے ہوئے حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتا ہے یا عیسائی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو جب تک اسے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا علم نہیں ہوتا، اس کا ایمان صحیح ہے، پھر جب اسے نبیﷺ کی بعثت کا علم ہوتا ہے اور وہ آپ پرایمان لے آتا ہے اس طرح اس نے دو نیکیاں کی ہیں جیسے حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ  کا واقعہ ہے۔

(4)
لونڈی غلام اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے انہیں وہ نیکیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا جو آزاد مسلمان کر سکتا ہے اس کے باوجود اگر وہ نماز روزہ کی پابندی کرتے ہیں اور شریعت کے جو احکام ایک لونڈی غلام پر عائد ہوتے ہیں وہ ان کی تکمیل کرتے ہیں تو ان کی زندگی واقعی ایک امتیازی شان رکھتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

(5)
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بغیر مشقت کے علم حاصل ہو رہا ہے۔
استاد کو چاہیے کہ شاگردوں کو علم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائے تاکہ وہ شوق سے علم حاصل کریں اور اسے پوری اہمیت دیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1956   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2053  
´اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کے ثواب کا بیان۔`
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2053]
فوائد ومسائل:
اسلام نے انسانی حقوق کی پاسداری اور حفاظت کے لئے جو تعلیمات پیش فرمائی ہیں۔
دنیا کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔
اس لئے اسلام نے غلاموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔
اور ایسے طریقے بھی بتلائے جس سے غلامی کا خاتمہ یا کم از کم اس کی اصلاح ہوسکے۔
اس حدیث میں بھی غلامی کی رسم کی حوصلہ شکنی کے لئے ایک نہایت مفید عمل بتلا دیا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5083  
5083. سیدنا ابو بردہ ؓ اپنے والد گرامی (سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرے، پھر اسے اچھے آداب سکھائے تو اس کے لیے دو گناہ اجر ہے۔ اور جو کوئی اہل کتاب سے اپنے نبیی پر ایمان لائے تو اس کے لیے بھی دو گنا اجر ہے۔ اور جو غلام اپنے آقاؤں کا حق ادا کرے اور اپنے رب کا بھی حق ادا کرے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔ شعبی نے کہا: ٰیہ حدیث کسی معاوضے کے بغیر لے جاؤ، جبکہ پہلے اس سے کم مسائل (معلوم کرنے) کے لیے آدمی کو مدینہ منورہ کا سفر کرنا پڑتا تھا ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص نے لوںڈی کو آزاد کر دیا اور اسے حق مہر بھی ادا کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5083]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ذکر کردہ اشخاص کے علاوہ درج ذیل حضرات کو دوگنا اجر ملے گا:
٭ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم۔
٭ وہ شخص جو مشقت اور تکلیف کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔
٭ جو اپنے قرابت داروں کو صدقہ دیتا ہے۔
٭ جو حاکم اپنے اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے۔
٭جو کسی دوسرے کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔
٭ جس نے تیمّم سے نماز پرھی، پھر پانی دستیاب ہونے پر کر کے دوبارہ نماز پڑھی۔
(2)
کچھ اہل علم لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کو مکروہ خیال کرتے ہیں، چنانچہ ایک خراسانی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا:
ہمارے ہاں اہل خراسان کہتے ہیں جو آدمی لونڈی آزاد کر کے اسے سے نکاح کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہو جو قربانی کے اونٹ پر سواری کر لیتا ہے۔
اس کی تردید میں امام شعبی رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی۔
حضرت سعید بن مسیّب اور ابراہیم نخعی سے اس کی کراہت منقول ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنا دوگنے اجر کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 159/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5083