صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
20. بَابُ لاَ يَتَزَوَّجُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ:
باب: چار بیویوں سے زیادہ (بیک وقت) آدمی نہیں رکھ سکتا۔
لِقَوْلِهِ تَعَالَى: مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ سورة النساء آية 3، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلَام: يَعْنِي مَثْنَى أَوْ ثُلَاثَ أَوْ رُبَاعَ، وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ سورة فاطر آية 1 يَعْنِي مَثْنَى أَوْ ثُلَاثَ أَوْ رُبَاعَ.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «مثنى وثلاث ورباع» واؤ «أو» کے معنی میں ہے۔ (یعنی دو بیویاں رکھو یا تین یا چار) زین العابدین بن حسین علیہ السلام فرماتے ہیں یعنی دو یا تین یا چار جیسے سورۃ فاطر میں اس کی نظیر موجود ہے «أولي أجنحة مثنى وثلاث ورباع» یعنی دو پنکھ والے فرشتے یا تین والے یا چار پنکھ والے۔
حدیث نمبر: 5098
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ،" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، قَالَتْ:الْيَتِيمَةُ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ وَهُوَ وَلِيُّهَا فَيَتَزَوَّجُهَا عَلَى مَالِهَا، وَيُسِيءُ صُحْبَتَهَا، وَلَا يَعْدِلُ فِي مَالِهَا، فَلْيَتَزَوَّجْ مَا طَابَ لَهُ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهَا مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإن خفتم أن لا،‏‏‏‏ تقسطوا في اليتامى‏» اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے۔ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو۔ ولی اس سے اس کے مال کی وجہ سے شادی کرتے اور اچھی طرح اس سے سلوک نہ کرتے اور نہ اس کے مال کے بارے میں انصاف کرتے ایسے شخصوں کو یہ حکم ہوا کہ اس یتیم لڑکی سے نکاح نہ کریں بلکہ اس کے سوا جو عورتیں بھلی لگیں ان سے نکاح کر لیں۔ دو دو، تین تین یا چار چار تک کی اجازت ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5098  
5098. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ درج زیل آیت کے متعلق فرماتی ہیں: اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہیں کرسکو گے۔۔۔ انہوں نے فرمایا: یتیم کسی سر پرست کے زیر کفالت ہوتی، وہ اس کے مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرلیتا لیکن اس سے اچھا سلوک نہ کرتا اور نہ اس کے مال کے متعلق عدل و انصاف ہی سے کام لیتا، اسے حکم دیا گیا کہ ان کےعلاوہ جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، خواہ دو دو سے یا تین تین سے یا چار چار سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5098]
حدیث حاشیہ:
بیک وقت شریعت اسلامی میں چارسے زائد بیویاں رکھنا قطعاًحرام ہے۔
باب میں حضرت امام بخاری نے حضرت زین العابدین کا قول نقل کر کے رافضیوں کا رد کیا کیونکہ وہ ان کو بہت مانتے ہیں پھر ان کے قول کے خلاف قرآن شریف کی تفسیر کیونکر جائز رکھتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5098   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5098  
5098. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ درج زیل آیت کے متعلق فرماتی ہیں: اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہیں کرسکو گے۔۔۔ انہوں نے فرمایا: یتیم کسی سر پرست کے زیر کفالت ہوتی، وہ اس کے مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرلیتا لیکن اس سے اچھا سلوک نہ کرتا اور نہ اس کے مال کے متعلق عدل و انصاف ہی سے کام لیتا، اسے حکم دیا گیا کہ ان کےعلاوہ جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، خواہ دو دو سے یا تین تین سے یا چار چار سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5098]
حدیث حاشیہ:
(1)
اسلامی شریعت میں بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا حرام ہے۔
چار کی اجازت بھی عدل وانصاف کے ساتھ مشروط ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے۔
دوسری احادیث میں اس کی وضاحت ہے:
٭ حضرت غیلان رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان میں سے چار کا انتخاب کر لو اور باقی عورتوں کو اپنے سے جدا کردو۔
(سنن ابن ماجه، النكاح، حديث: 1953)
٭ حضرت قیس بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
میں جب مسلمان ہوا تو میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان میں سے چار پسند کرلو۔
(سنن أبي داود، الطلاق، حديث: 2241)
٭نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کی پانچ بیویاں تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا:
چار کو رکھ لو اور دوسری، یعنی پانچویں کو چھوڑ دو۔
(السنن الكبريٰ للبيهقي: 184/7) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا حکم اجماع سے ثابت ہے۔
(فتح الباري: 174/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5098