مشكوة المصابيح
كتاب الصلاة -- كتاب الصلاة

دو نمازوں کے درمیان تھوڑا رکنے کا حکم
حدیث نمبر: 972
عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: صَلَّى بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُكْنَى أَبَا رِمْثَةَ قَالَ صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ أَوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلَاةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَقُومَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِينِهِ وَكَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ فَصَلَّى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى رَأَيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ ثُمَّ انْفَتَلَ كَانْفِتَالِ أَبِي رِمْثَةَ يَعْنِي نَفْسَهُ فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِي أَدْرَكَ مَعَهُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ يَشْفَعُ فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ فَأَخَذَ بمنكبه فَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ اجْلِسْ فَإِنَّهُ لَمْ يُهْلِكْ أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ صلواتهم فَصْلٌ. فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَره فَقَالَ: «أصَاب الله بك يَا ابْن الْخطاب» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ازرق بن قیس ؒ بیان کرتے ہیں، ہمارے امام ابورمثہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو انہوں نے کہا: میں نے یہ نماز یا اس کی مثل نماز، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پڑھی تھی، انہوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ پہلی صف میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب کھڑے ہوا کرتے تھے، ایک آدمی جو تکبیر اولی میں آ کر شامل ہوا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی، پھر اپنے دائیں بائیں سلام پھیرا حتیٰ کہ ہم نے آپ کے رخساروں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مڑے جیسے ابورمثہ یعنی وہ خود مڑے، پس وہ آدمی جو تکبیر اولی میں آپ کے ساتھ شریک ہوا تھا، وہ کھڑا ہوا اور پھر نماز شروع کر دی، تو عمر رضی اللہ عنہ جلدی سے کھڑے ہوئے اور اسے اس کے کندھوں سے پکڑ کر خوب ہلایا، پھر فرمایا: بیٹھ جاؤ، کیونکہ اہل کتاب اسی لیے ہلاک ہوئے تھے کہ ان کی (فرض و نفل) نمازوں میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا، پس نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظر اٹھائی تو فرمایا: ابن خطاب! اللہ نے تیری وجہ سے حق قائم کر دیا۔ ضعیف۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1007)
٭ وقال الذهبي في تلخيص المستدرک (1/ 270): ’’المنھال (بن خليفة) ضعفه ابن معين و أشعث (بن شعبة) لين و الحديث منکر.‘‘»

قال الشيخ الألباني: ضَعِيف