صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
28. بَابُ لاَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا:
باب: اس بیان میں کہ اگر پھوپھی یا خالہ نکاح میں ہو تو اس کی بھتیجی یا بھانجی کو نکاح میں نہیں لایا جا سکتا۔
حدیث نمبر: 5111
لِأَنَّ عُرْوَةَ حَدَّثَنِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.
عروہ نے مجھ سے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رضاعت سے بھی ان تمام رشتوں کو حرام سمجھو جو خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5111  
5111. کیونکہ سیدنا عروہ ؒ نے سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے فرمایا: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں انہیں رضاعت سے بھی حرام قرار دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5111]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ جیسے باپ کی خالہ یا باپ کی پھوپھی سے نکاح درست نہیں، اسی طرح باپ کی خالہ اور اس کے بھانجے کی بیٹی اور باپ کی پھوپھی اور اس کے بھتیجے کی بیٹی میں جمع جائز نہ ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5111   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5111  
5111. کیونکہ سیدنا عروہ ؒ نے سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے فرمایا: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں انہیں رضاعت سے بھی حرام قرار دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5111]
حدیث حاشیہ:
(1)
پھوپھی کے لفظ میں دادا کی بہن، نانا کی بہن،ان کے باپ کی بہن، اسی طرح خالہ کے لفظ میں نانی کی بہن اور نانی کی ماں سب داخل ہیں۔
اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ایسی دو عورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا منع ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد تصور کریں تو دوسری عورت سے اس کا نکاح جائز نہ ہو، البتہ اپنی بیوی کے ماموں کی بیٹی، چچاکی بیٹی، پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔
(2)
ابن حبان کی روایت میں اس کی علت بیان کی گئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں ان کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کیا جائے۔
آپ نے فرمایا:
اگر تم ایسا کرو گے تو قطع رحمی کے مرتکب ہوگے۔
(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 426/9، رقم: 4116، و فتح الباري: 202/9)
بیوی کے باپ کی خالہ کو بھی اس درجے میں رکھا گیا ہے۔
اس سے مراد رضاعی خالہ ہے کیونکہ اس کے بعد رضاعت کا مسئلہ بیان ہوا ہے، یعنی خالہ سے مراد عام ہے، خواہ نسبی ہو یا رضاعی، اس عورت کی اپنی ہو یا اس کے باپ کی، بہر حال اس سے کئی ایک فروعات نکلتی ہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5111