صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
32. بَابُ نَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ آخِرًا:
باب: آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ سے منع کر دیا تھا (اس لیے اب متعہ حرام ہے)۔
حدیث نمبر: 5116
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَرَخَّصَ، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الْحَالِ الشَّدِيدِ، وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ کرنے کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی، پھر ان کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت سخت مجبوری یا عورتوں کی کمی یا اسی جیسی صورتوں میں ہو گی؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہاں۔ (نوٹ: یہ حرمت سے قبل کی بات ہے بعد میں ہر حالت میں ہر شخص کے لیے متعہ حرام قرار دیا گیا جو قیامت تک کے لیے ہے)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5116  
5116. سیدنا ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے سنا، ان سے عورتوں سے نکاح متعہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی اجازت دی۔ پھر ان کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت مجبوری، عورتوں کی کمی یا اس جیسی دیگر صورتوں میں ہوگی؟ تو سیدنا ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5116]
حدیث حاشیہ:
یہ حرمت سے قبل کی بات ہے بعد میں ہر حالت میں ہر شخص کے لئے متعہ حرام قرار دے دیا گیا جو قیامت تک کے لئے حرام ہے۔
أن التحریم و الإباحة کانتا مرتین فکانت حلالة قبل خیبر ثم حرمت یوم خیبرثم أبیحت یوم أوطاس ثم حرمت یومئذ بعد ثلاثة أیام تحریما موبدا إلی یوم القیٰمة و استمر التحریم کما في روایة مسلم عن سبرة الجهني أنه کان مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال یا أیھا الناس إنی قد کنت اٰذنت لکم في الاستمتاع من النساء و إن اللہ قد حرم ذالك إلی یوم القیٰمة فمن کان عند ہ منھن شيئ فلیخل سبیله فلعل علیا لم یبلغه الإباحة یوم أوطاس لقلتھا کما روی مسلم رخص رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم عام أوطاس في المتعة ثلاثا ثم نهی عنھا (حاشیۃ بخاری)
یعنی متعہ کی حرمت اور اباحت دو مرتبہ ہوئی ہے خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر خیبر میں اسے حرام قرار دیا گیا پھر جنگ اوطاس میں اسے حلال کیا گیا پھر تین دن کے بعد یہ ہمیشہ قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا اور یہ تحریم دائمی ہے جیسا کہ سبرہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اسے اللہ نے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے پس جن کے پاس کوئی متعہ والی عورت ہو تواسے فوراً نکال دو پس شاید علی رضی اللہ عنہ کو یوم اوطاس کی حلت اور دوبارہ حرمت کا علم نہیں ہوسکا کیونکہ یہ حلت صرف تین دن رہی بعد میں حرام مطلق ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔
اب متعہ قیامت تک کے لئے کسی بھی حالت میں حلال نہیں ہے آج کے بعض متجدد اپنی تجدد پسند ی چمکانے کے لئے متعہ کی حرمت میں کچھ موشگافیاں کرتے ہیں جو محض اباطیل ہیں۔
شیعہ حضرات کو چھوڑ کر اہل سنت و الجماعت کے جملہ فرقے اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اب متعہ کے حلال ہونے کے لئے کوئی بھی صورت سامنے آ جائے مگر متعہ ہمیشہ کے لئے ہر حال میں حرام قرار دیا گیا ہے، اس کی حلت کے لئے کوئی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5116   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5116  
5116. سیدنا ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے سنا، ان سے عورتوں سے نکاح متعہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی اجازت دی۔ پھر ان کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت مجبوری، عورتوں کی کمی یا اس جیسی دیگر صورتوں میں ہوگی؟ تو سیدنا ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5116]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
آپ کے فتوے نے بہت شہرت حاصل کر لی ہے اور اس کے متعلق شعراء نے شعر کہنے شروع کر دیے ہیں تو انھوں نے فرمایا:
میں نے تو اس طرح کا فتوی نہیں دیا بلکہ وہ تو ایک اضطراری صورت، یعنی مجبوری کی حالت میں تھا جیسا کہ مجبوری کے وقت مردار اور خنزیر کے گوشت کا کھانا جائز ہے۔
میں نے ایسے سخت حالات کے متعلق نرم گوشہ اختیار کیا تھا۔
میرے نزدیک نکاح متعہ حرام ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 205/7) (2)
پیش کردہ روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی رخصت اضطراری حالت میں دی تھی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نعم کہا اور خاموش ہو گئے اور غلام کو کوئی جواب نہ دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے پہلے فتوے سے رجوع کر چکے تھے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5116