صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
37. بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ:
باب: بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا۔
حدیث نمبر: 5128
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: هَذَا فِي الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ شَرِيكَتَهُ فِي مَالِهِ وَهُوَ أَوْلَى بِهَا، فَيَرْغَبُ أَنْ يَنْكِحَهَا، فَيَعْضُلَهَا لِمَالِهَا وَلَا يُنْكِحَهَا غَيْرَهُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَشْرَكَهُ أَحَدٌ فِي مَالِهَا".
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت «وما يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما كتب لهن وترغبون أن تنكحوهن‏» یعنی وہ (آیات بھی) جو تمہیں کتاب کے اندر ان یتیم لڑکوں کے بارے میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ نہیں دیتے ہو جو ان کے لیے مقرر ہو چکا ہے اور اس سے بیزار ہو کہ ان کا کسی سے نکاح کرو۔ ایسی یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کی پرورش میں ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے مال و جائیداد میں بھی شریک ہو، وہی لڑکی کا زیادہ حقدار ہے لیکن وہ اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا البتہ اس کے مال کی وجہ سے اسے روکے رکھتا ہے اور کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5128  
5128. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کریمہ وہ آیات جو کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت ایسی لڑکی کے متعلق نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کے زیر پرورش ہوتی شاید وہ اس کے مال و جائیداد میں شریک ہوتی اور وہی آدمی لڑکی کا زیادہ حقدار ہوتا جبکہ وہ اس سے رو گردانی کرتا، چنانچہ اس کے مال کے باعث کسی اور اس کا نکاح کرنے سے بھی پہلو تہی کرتا، مبادا کوئی دوسرا اس کے مال میں شریک ہو جائے، اس لیے وہ کسی مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے. [صحيح بخاري، حديث نمبر:5128]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیو نکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فر مایا کہ دوسرے سے بھی نکاح نہ کرنے دے تو معلوم ہوا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے، اگر عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی تو ولی اس کو کیونکر روک سکتا پس نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5128   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5128  
5128. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کریمہ وہ آیات جو کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت ایسی لڑکی کے متعلق نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کے زیر پرورش ہوتی شاید وہ اس کے مال و جائیداد میں شریک ہوتی اور وہی آدمی لڑکی کا زیادہ حقدار ہوتا جبکہ وہ اس سے رو گردانی کرتا، چنانچہ اس کے مال کے باعث کسی اور اس کا نکاح کرنے سے بھی پہلو تہی کرتا، مبادا کوئی دوسرا اس کے مال میں شریک ہو جائے، اس لیے وہ کسی مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے. [صحيح بخاري، حديث نمبر:5128]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح منعقد ہونے کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے، اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق زیر پرورش لڑکی کا ولی نہ خود اس کا نکاح کرتا اور نہ کسی دوسرے ہی سے نکاح کرنے دیتا۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے۔
اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو ولی اسے کیونکر روک سکتا تھا، لہٰذا نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے، البتہ ایک حدیث میں ہے:
شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3476 (1421)
یہ حدیث مذکورہ احادیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق شوہر دیدہ کو اپنے خاوند کے متعلق انتخاب کا زیادہ حق دیا گیا ہے، انتخاب کے بعد ولی کی اجازت سے نکاح ہو سکے گا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5128