صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
37. بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ:
باب: بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا۔
حدیث نمبر: 5129
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ عُمَرَ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ ابْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ تُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ، أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، فَقَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ: بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما ابن حذافہ سہمی سے بیوہ ہوئیں۔ ابن حذافہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور انہیں پیش کش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا چند دن میں نے انتظار کیا اس کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی نکاح نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کروں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5129  
5129. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب سیدہ حفصہ بنت عمر‬ ؓ س‬یدنا خنیس بن حذافہ سہمی ؓ سے بیوہ ہوئیں۔۔۔ وہ (ابن حذافہ ؓ) نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے اور غزوہ بدر میں شریک تھے، ان کی وفات مدینہ طیبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ میں عثمان بن عفان ؓ سے ملا اور انہیں سیدہ حفصہ‬ ؓ س‬ے نکاح کی پیش کش کی اور ان سے کہا: اگر آپ چاہیں تو حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں؟ سیدنا عثمان بن عفان ؓ نے جواب دیا: میں اس معاملے کے متعلق غور کروں گا۔ چند دن میں نے انتظار کیا، اس کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا: میرے لیے یہ ظاہر ہوا ہے کہ میں ابھی نکاح نہ کروں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ‬ ؓ ک‬ا نکاح آپ سے کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5129]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے حضرت امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا باوجود یکہ بیوہ تھیں لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولایت ان پر سے ساقط نہیں ہوئی، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کا نکاح کر دیتا ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5129   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5129  
5129. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب سیدہ حفصہ بنت عمر‬ ؓ س‬یدنا خنیس بن حذافہ سہمی ؓ سے بیوہ ہوئیں۔۔۔ وہ (ابن حذافہ ؓ) نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے اور غزوہ بدر میں شریک تھے، ان کی وفات مدینہ طیبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ میں عثمان بن عفان ؓ سے ملا اور انہیں سیدہ حفصہ‬ ؓ س‬ے نکاح کی پیش کش کی اور ان سے کہا: اگر آپ چاہیں تو حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں؟ سیدنا عثمان بن عفان ؓ نے جواب دیا: میں اس معاملے کے متعلق غور کروں گا۔ چند دن میں نے انتظار کیا، اس کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا: میرے لیے یہ ظاہر ہوا ہے کہ میں ابھی نکاح نہ کروں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ‬ ؓ ک‬ا نکاح آپ سے کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5129]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما شوہر دیدہ تھیں، اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حق ولایت ختم نہیں ہوا بلکہ وہی مختلف حضرات کو ان کے ساتھ نکاح کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔
اگر وہ اس کے مجاز نہ ہوتے تو یہ اقدام نہ کرتے۔
(2)
بعض حضرات عقد نکاح کو خرید و فروخت کے معاملے پر قیاس کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے بیع کے انعقاد میں محض بیچنے اور خریدنے والے کی رضامندی ہی کافی ہوتی ہے اسی طرح نکاح میں بھی لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ہی کافی ہے۔
لیکن یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے یہ قیاس باطل اور بے اصل ہے۔
(3)
بہرحال عورت کے نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ ولی سے مراد باپ ہے۔
اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر بھائی، اس کے بعد چچا ہے۔
اختلاف کی صورت میں قریبی ولی کو ترجیح ہوگی۔
اگر دونوں ولی برابر حیثیت رکھتے ہوں تو اختلاف کی صورت میں حاکم یا پنچایت کو حق ولایت ہوگا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5129