صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
42. بَابُ لاَ يُنْكِحُ الأَبُ وَغَيْرُهُ الْبِكْرَ وَالثَّيِّبَ إِلاَّ بِرِضَاهَا:
باب: باپ یا کوئی دوسرا ولیٰ کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر نہ کرے۔
حدیث نمبر: 5137
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحِي، قَالَ: رِضَاهَا صَمْتُهَا".
ہم سے عمرو بن ربیع بن طارق نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمرو ذکوان نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کنواری لڑکی (کہتے ہوئے) شرماتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا خاموش ہو جانا ہی اس کی رضا مندی ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5137  
5137. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی تو شرماتی ہے (اس لیے بول نہیں سکتی) تو آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5137]
حدیث حاشیہ:
(1)
شوہر دیدہ بالغہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، نکاح کرنے والا باپ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا۔
اس میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ کنواری نابالغہ کا نکاح اس کا باپ ہی کر سکتا ہے۔
شوہر دیدہ نابالغ اور کنواری بالغہ کے متعلق اختلاف ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کنواری ہو یا بیوہ، چھوٹی ہو یا بڑی، نکاح کے وقت اس کی رضامندی بنیادی شرط ہے، حدیث کے ظاہری الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے، نیز بیوہ سے مشورہ اور کنواری سے اجازت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ منہ سے بول کر اپنی رضامندی کا اظہار کرے کیونکہ اپنے سابقہ تجربے کی وجہ سے اس کے بول کر کہنے میں کسی قسم کی حیا مانع نہیں ہوتی لیکن کنواری حیا کے مارے اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتی، اس لیے اس کی خاموشی ہی اجازت سمجھی جائے گی۔
(2)
فقہاء نے اس کے متعلق مزید وضاحت کی ہے کہ اجازت لیتے وقت اس کا ہنس دینا بھی اجازت کی علامت ہے لیکن اگر مذاق کے طور پر ہنسے تو یہ رضامندی نہیں ہوگی۔
اس کا مذاق یا خوشی سے ہنسنا حالات و قرائن سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اگر اجازت کے وقت وہ روپڑے تو یہ اجازت کی علامت نہیں۔
لیکن بعض اوقات خوشی کے موقع پر بھی آنسو آ جاتے ہیں، پھر آنسوؤں کے متعلق بھی تفصیل ہے:
اگر آنسو گرم ہیں تو اجازت نہیں اور اگر آنسو ٹھنڈے ہیں تو یہ اجازت کی علامت ہیں کیونکہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں جبکہ غم اور پریشانی میں آنسو گرم آتے ہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5137