صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
58. بَابُ الدُّعَاءِ لِلنِّسَاءِ اللاَّتِي يَهْدِينَ الْعَرُوسَ، وَلِلْعَرُوسِ:
باب: جو عورتیں دولہن کو بناؤ سنگھار کر کے دولہا کے گھر لائیں ان کو اور دولہن کو کیونکر دعا دیں۔
حدیث نمبر: 5156
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْنِي أُمِّي فَأَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے شادی کی تو میری والدہ (ام رومان بنت عامر) میرے پاس آئیں اور مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر کے اندر قبیلہ انصار کی عورتیں موجود تھیں۔ انہوں نے (مجھ کو اور میری ماں کو) یوں دعا دی «بارك وبارك الله» اللہ کرے تم اچھی ہو تمہارا نصیبہ اچھا ہو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1876  
´باپ نابالغ بچیوں کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے، مجھے بخار آ گیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھر بال بڑھ کر مونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں، ماں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ پر لا کھڑا کیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1876]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نابالغ بچی کا نکاح درست ہے۔

(2) (اُرْجُوحَة)
جھولا ایک بڑی لکڑی ہوتی ہے جو درمیان سے اونچی جگہ رکھی ہوتی ہے۔
بچے اس پر دونوں طرف بیٹھ جاتے ہیں۔
جب وہ ایک طرف سے نیچے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے اوپر اٹھ جاتی ہے۔
اسے انگریزی میں (See Saw)
سی سا کہتے ہیں۔

(3)
رخصتی کے وقت دلھن کو آراستہ کرنا مسنون ہے۔

(4)
رخصتی کے وقت ہمسایہ خواتین کا جمع ہونا اور تیاری میں مدد دینا درست ہے تاہم آج کل جو بے جا تکلفات اور رسم و رواج اختیار کر لیے گئے ہیں یہ خواہ مخواہ کی تکلیف ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

(5)
اسی طرح بیوٹی پارلروں میں بھیج کر دلھن کو آراستہ کروانا فضول خرچی بھی ہے، حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی بھی اور تغییر لخلق اللہ بھی۔

(6)
اسلام میں برات کا کوئی تصور نہیں یہ ہندوانہ رسم ہے۔
اسی طرح مروجہ جہیز بھی غیر اسلامی رسم ہے۔

(7)
نوسال کی بچی بالغ ہو سکتی ہے اور بالغ ہونے پر اس کی رخصتی بھی ہو سکتی ہے۔
اس میں کسی خاص عمر کی شرعا کوئی شرط نہیں، اس لیے موجودہ عائلی قوانین میں مخصوص عمر کی شرط لگائی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2121  
´کمسن بچیوں کے نکاح کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اس وقت سات سال کی تھی (سلیمان کی روایت میں ہے: چھ سال کی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے (شب زفاف منائی) اس وقت میں نو برس کی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2121]
فوائد ومسائل:
والد کو بالخصوص حق حاصل ہے کی کسی مصلحت کے پیش نظر چھوٹی عمر کی بچی کا نکاح کردے، مگر صحبت ومباشرت کے لئے بلوغت کا شرط ہونا عقل، نقل اور اخلاق کا لازمی تقاضا ہے اور چھوٹی عمرکا ازواج کسی طرح بھی منافی عقل وشرع نہیں ہے۔
اگر کسی کے مزاج پر اپنا ذوق اور علاقائی خاندانی رواج غالب ہو تو، کیا کہا جا سکتا ہے! ان چیزوں کو اصول شریعت نہیں بنایا جا سکتا اور پھر رسول ﷺاور ابو بکر صدیق رضی اللہ کے تعلقات شروع دن سے صدیقیت پر مبنی تھے، نبیﷺ ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکے تو ان کو اپنے اور قریب کر لیا۔
مزید برآں یہ نکاح بطور خاص وحی منام کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔
جیسا کہ حدث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
علمائے طب لکھتے ہیں کہ گرم علاقوں میں لڑکیاں نو سال کی عمر میں حائضہ ہو جاتی ہیں اور معتدل مناطق میں بارہ سال میں اور ٹھنڈے علاقوں میں سولہ سال میں بالغ ہوتی ہیں۔
دارقطنی اور بیہقی میں عباد بن عباد سے روایت ہے کہ ہماری ایک عورت اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔
امام بخاری ؒ نے اسی طرح ایک واقعہ اکیس سال عمر کا بیان کیا ہے۔
(ازحاشیہ بذل المجھود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2121   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5156  
5156. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو میرے ساتھ میری والدہ تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے ایک گھر میں پینچا دیا جہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے یوں دعا دی تمہارا آنا خیر و برکت پر ہو اور اللہ کرے تمہارا نصیب بھی اچھا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5156]
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں ہے کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھلایا اور کہا یا رسول اللہ! یہ آپ کی بیوی ہے اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5156   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5156  
5156. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو میرے ساتھ میری والدہ تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے ایک گھر میں پینچا دیا جہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے یوں دعا دی تمہارا آنا خیر و برکت پر ہو اور اللہ کرے تمہارا نصیب بھی اچھا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5156]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا نے انھیں رخصتی کے لیے تیار کیا اور انصار کی خواتین نے ان کے لیے، جو عورتیں ان کے ہمراہ تھیں، نیز دلھن کے لیے خیر و برکت کی دعا کی کہ تم سب خیر و برکت پر آئی ہو۔
(2)
زمانۂ قدیم سے یہ عادت چلی آ رہی ہے کہ جب دلھن کی والدہ اسے لے کر دلہے کے گھر آتی ہے تو اس کے ہمراہ کچھ نہ کچھ خواتین ضرور آتی ہیں۔
ان سب کے لیے انصار کی خواتین نے دعا کی جو دلھن کے آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں موجود تھیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بٹھا دیا اور کہا:
اللہ کے رسول! یہ آپ کی بیوی ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے آپ کے لیے با برکت بنائے۔
(مسند أحمد: 211/6، و فتح الباري: 278/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5156