مشكوة المصابيح
كتاب الصلاة -- كتاب الصلاة

قربانی کے مسنون طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 1461
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ موجئين فَلَمَّا وجههما قَالَ: «إِنِّي وجهت وَجْهي للَّذي فطر السَّمَوَات وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أَمَرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ ذَبَحَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيِّ: ذَبَحَ بِيَدِهِ وَقَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُمَّ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ من أمتِي»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عید الاضحی کے روز سینگوں والے چتکبرے دو خصی مینڈھے ذبح کیے، جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں قبلہ رخ کیا تو یہ دعا پڑھی: بے شک میں نے ابراہیم جو کہ یکسو تھے کے دین پر ہوتے ہوئے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں (اطاعت گزاروں) میں سے ہوں، اے اللہ! (یہ قربانی کا جانور) تیری عطا ہے اور تیرے ہی لیے ہے، اسے محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اور ان کی امت کی طرف سے قبول فرما، اللہ کے نام سے اور اللہ بہت بڑا ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذبح فرمایا۔ احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی۔ اور احمد، ابوداؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا، اور یہ دعا پڑھی: اللہ کے نام سے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ میری اور میری امت کے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔ ضعیف۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه أحمد (375/3 ح 15086 مختصرًا) و أبو داود (2795) و ابن ماجه (3121 وھو حديث حسن.) والدارمي (75/2. 76 ح 1952) [و للحديث شواھد.]
٭ ابن إسحاق عنعن في ھذا اللفظ و الرواية الثانية لأحمد (362/3) و أبي داود (2810) والترمذي (1521وقال: غريب.) والحديث صحيح بدون قوله: ’’موجئين‘‘ انظر صحيح ابن خزيمة (2899 وسنده حسن)»

قال الشيخ الألباني: ضَعِيف