صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
78. بَابُ قِيَامِ الْمَرْأَةِ عَلَى الرِّجَالِ فِي الْعُرْسِ وَخِدْمَتِهِمْ بِالنَّفْسِ:
باب: شادی میں عورت مردوں کا کام کاج خود اپنی ذات سے کرے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 5182
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ:" لَمَّا عَرَّسَ أَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَمَا صَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا وَلَا قَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ إِلَّا امْرَأَتُهُ أُمُّ أُسَيْدٍ بَلَّتْ تَمَرَاتٍ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّعَامِ أَمَاثَتْهُ لَهُ، فَسَقَتْهُ تُتْحِفُهُ بِذَلِكَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم (سلمہ بن دینار) نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دعوت دی، اس موقعہ پر کھانا ان کی دلہن ام اسید ہی نے تیار کیا تھا اور انہوں نے ہی مردوں کے سامنے کھانا رکھا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ہی اس کا شربت بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (تحفہ کے طور پر) پینے کے لیے پیش کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1912  
´ولیمہ کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں بلایا، تو سب لوگوں کی خدمت دلہن ہی نے کی، وہ دلہن کہتی ہیں: جانتے ہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا؟ میں نے چند کھجوریں رات کو بھگو دی تھیں، صبح کو میں نے ان کو صاف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا شربت پلایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1912]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ولیمے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص معمولی دعوت ہی کر سکتا ہو تو اس کو قرض لے کر پر تکلف دعوت کرنے کی ضرورت نہیں۔

(2)
ہرشخص کی دعوت قبول کرنی چاہیے، خواہ وہ غریب ہو یا امیر۔

(3)
عورت مہمانوں کی خدمت کر سکتی ہے اگرچہ وہ محرم نہ ہوں بشرطیکہ شرعی پردے کا خیال رکھا جائے۔

(4)
کجھوروں کو پانی میں بھگو کر جو شربت بنایا جاتا ہے اسے نبیذ کہتے ہیں۔
اس میں نشہ نہیں ہوتا اس طرح کا شربت منقی پانی میں رات بھر بھگو کر بھی بنایا جاتا ہے۔
اگر اسے مناسب مدت سے زیادہ رکھا جائے تو اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے، اس وقت اس کا پینا حرام ہے۔
اس کی علامت یہ ہے کہ شربت پر جھاگ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا ذائقہ میٹھے کے بجائے کڑوا ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1912   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5182  
5182. سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب سیدنا ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت طعام دی اس موقع پر کھانا ان کی دلھن ام اسید رضی اللہ عنہا نے خود ہی تیار کیا اور خود ہی مردوں کو پیش کیا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھیں پھر جب نبی ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو ام اسید رضی اللہ عنہا نے ہی شربت تیار کیا اور آپ ﷺ کو بطور تحفہ پیش کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5182]
حدیث حاشیہ:
لفظ أماثته أماتة سے ہے اس کے معنی پانی میں کسی چیز کا حل کرنا۔
معلوم ہوا کہ دلہن بھی فرائض میزبانی ادا کر سکتی ہے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت پردے کے ساتھ عورت ایسے سارے کام کاج کر سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5182   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5182  
5182. سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب سیدنا ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت طعام دی اس موقع پر کھانا ان کی دلھن ام اسید رضی اللہ عنہا نے خود ہی تیار کیا اور خود ہی مردوں کو پیش کیا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھیں پھر جب نبی ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو ام اسید رضی اللہ عنہا نے ہی شربت تیار کیا اور آپ ﷺ کو بطور تحفہ پیش کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5182]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت دلہن بھی فرائض میزبانی ادا کر سکتی ہے اور پردے کے ساتھ وہ گھر میں کام کاج کر سکتی ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے بیوی کا خاوند اور مہما نوں کی خدمت کرنا ثابت ہوتا ہے، خاوند کے علاوہ دوسرے لوگوں کی خدمت اس وقت جائز ہے جب کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور عورت بھی پردے کی پابندی کرے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی سے اس طرح کی خدمت لے سکتا ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 312/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5182