صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
79. بَابُ النَّقِيعِ وَالشَّرَابِ الَّذِي لاَ يُسْكِرُ فِي الْعُرْسِ:
باب: کھجور کا شربت یا اور کوئی شربت جس میں نشہ نہ ہو شادی میں پلانا۔
حدیث نمبر: 5183
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ،" أَنَّ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُرْسِهِ، فَكَانَتِ امْرَأَتُهُ خَادِمَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَهِيَ الْعَرُوسُ، فَقَالَتْ: أَوْ قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَنْقَعَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْقَعَتْ لَهُ تَمَرَاتٍ مِنَ اللَّيْلِ فِي تَوْرٍ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری نے بیان کیا، ان سے ابوالحازم نے، کہا کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابواسید ساعدی نے اپنی شادی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی۔ اس دن ان کی بیوی ہی سب کی خدمت کر رہی تھیں، حالانکہ وہ دلہن تھیں بیوی نے کہا یا سہل نے (راوی کو شک تھا) کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا تیار کیا تھا؟ میں نے آپ کے لیے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت سے کھجور کا شربت تیار کیا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1912  
´ولیمہ کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں بلایا، تو سب لوگوں کی خدمت دلہن ہی نے کی، وہ دلہن کہتی ہیں: جانتے ہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا؟ میں نے چند کھجوریں رات کو بھگو دی تھیں، صبح کو میں نے ان کو صاف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا شربت پلایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1912]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ولیمے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص معمولی دعوت ہی کر سکتا ہو تو اس کو قرض لے کر پر تکلف دعوت کرنے کی ضرورت نہیں۔

(2)
ہرشخص کی دعوت قبول کرنی چاہیے، خواہ وہ غریب ہو یا امیر۔

(3)
عورت مہمانوں کی خدمت کر سکتی ہے اگرچہ وہ محرم نہ ہوں بشرطیکہ شرعی پردے کا خیال رکھا جائے۔

(4)
کجھوروں کو پانی میں بھگو کر جو شربت بنایا جاتا ہے اسے نبیذ کہتے ہیں۔
اس میں نشہ نہیں ہوتا اس طرح کا شربت منقی پانی میں رات بھر بھگو کر بھی بنایا جاتا ہے۔
اگر اسے مناسب مدت سے زیادہ رکھا جائے تو اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے، اس وقت اس کا پینا حرام ہے۔
اس کی علامت یہ ہے کہ شربت پر جھاگ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا ذائقہ میٹھے کے بجائے کڑوا ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1912   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5183  
5183. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو اسید ساعدی ؓ نے اپنی شادی کے موقع پر نبی ﷺ کو مدعو کیا تو اس دن ان کی بیوی ہی مدعوین کی خدمت گزار تھی جبکہ وہ دلھن تھی۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کون سا جوس رسول اللہ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا؟ میں نے رات کے وقت ہی ایک پتھر کے پیالے میں کچھ کھجوریں بھگودیں (اور ان کا جوس رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5183]
حدیث حاشیہ:
عرب میں کھجور ایک مرغوب اور بکثرت ملنے والی جنس تھی۔
کھانے میں اور شربت بنانے میں اکثر اسی کا استعمال ہوتا تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5183   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5183  
5183. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو اسید ساعدی ؓ نے اپنی شادی کے موقع پر نبی ﷺ کو مدعو کیا تو اس دن ان کی بیوی ہی مدعوین کی خدمت گزار تھی جبکہ وہ دلھن تھی۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کون سا جوس رسول اللہ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا؟ میں نے رات کے وقت ہی ایک پتھر کے پیالے میں کچھ کھجوریں بھگودیں (اور ان کا جوس رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5183]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں نقیع کے بعد شراب کا ذکر کیا گیا ہے جو فقہی اصطلاح میں عام کا خاص پر عطف ہے۔
(2)
مشروب کے لیے شرط ہے کہ اس میں نشہ نہ ہو کیونکہ نشہ آور کوئی بھی مشروب استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
(3)
یاد رہے کہ نقیع وہ کھجوریں ہیں جو پانی میں ڈال دی جائیں تاکہ ان کی مٹھاس نکل آئے،جسے ہماری زبان میں کھجور کا جوس (نبیذ)
کہتے ہیں۔
(4)
عربوں کےہاں کھجور ایک مرغوب اور بکثرت ملنے والا میوہ ہے۔
کھانے میں اور شربت بنانے میں عرب اسی کو استعمال کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5183