مشكوة المصابيح
كتاب الجنائز -- كتاب الجنائز

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا میت پر رونے پیٹنے سے منع کرنا
حدیث نمبر: 1742
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: تُوُفِّيَتْ بِنْتٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ فَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بن عمر لعَمْرو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ؟ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» . فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ كَانَ عُمَرُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ. ثُمَّ حَدَّثَ فَقَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ فَإِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ الرَّكْبُ؟ فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ. قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: ادْعُهُ فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالْحَقْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا أَنْ أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يبكي يَقُول: وَا أَخَاهُ واصاحباه. فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ أَتَبْكِي عَلَيَّ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ؟» فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَكَرْتُ ذَلِك لعَائِشَة فَقَالَت: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ لَا وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَلَكِنْ: إِنَّ اللَّهَ يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ. وَقَالَتْ عَائِشَةُ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وزر أُخْرَى) قَالَ ابْن عَبَّاس عِنْد ذَلِك: وَالله أضح وأبكي. قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: فَمَا قَالَ ابْنُ عمر شَيْئا
عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بیٹی مکہ میں وفات پا گئیں تو ہم اس کے جنازہ میں شریک ہونے کے لیے آئے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے تھے، میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عثمان سے فرمایا: جبکہ وہ اس کے مقابل تھے، کیا تم رونے سے منع نہیں کرتے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت کو، اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے، عذاب دیا جاتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ اس کا بعض حصہ بیان کیا کرتے تھے، پھر انہوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے حدیث بیان کی تو فرمایا: میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے واپس آیا، حتیٰ کہ جب ہم بیداء کے قریب پہنچے تو انہوں نے کیکر کے سائے تلے ایک قافلہ دیکھا تو فرمایا: جاؤ دیکھو کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے دیکھا تو وہ صہیب رضی اللہ عنہ تھے، چنانچہ میں نے ان کو بتایا، تو انہوں نے فرمایا: اس (صہیب رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ، میں صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے کہا: یہاں سے کوچ کرو اور امیرالمؤمنین کے پاس چلو، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا، تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے: آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے! آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے! تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صہیب! کیا تم مجھ پر روتے ہو؟ جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ حدیث بیان نہیں کی کہ میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ بلکہ اللہ کافر شخص پر ‘ اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب بڑھا دیتا ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں قرآن کافی ہونا چاہیے: کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی بات نہ کی۔ متفق علیہ۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1286. 1288) و مسلم (927/23. 929)»

قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ