صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ -- کتاب: ایمان کے بیان میں
35. بَابُ اتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: جنازے کے ساتھ جانا ایمان میں داخل ہے۔
حدیث نمبر: 47
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيٍّ الْمَنْجُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّه يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ"، تَابَعَهُ عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
ہم سے احمد بن عبداللہ بن علی منجونی نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، انہوں نے حسن بصری اور محمد بن سیرین سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ روح کے ساتھ اس حدیث کو عثمان مؤذن نے بھی روایت کیا ہے۔ کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن سیرین سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگلی روایت کی طرح۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 47  
تشریح:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ابواب میں ایمان و اسلام کی تفصیلات بتلاتے ہوئے زکوٰۃ کی فرضیت کو قرآن شریف سے ثابت فرمایا اور بتلایا کہ زکوٰۃ دینا بھی ایمان میں داخل ہے، جو لوگ فرائض دین کو ایمان سے الگ قرار دیتے ہیں، ان کا قول درست نہیں۔ حدیث میں جس شخص کا ذکر ہے اس کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ نجد لغت میں بلند علاقہ کو کہتے ہیں، جو عرب میں تہامہ سے عراق تک پھیلا ہوا ہے۔ جنازے کے ساتھ جانا بھی ایسا نیک عمل ہے، جو ایمان میں داخل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1539  
´نماز جنازہ پڑھنے اور دفن تک انتظار کرنے کا ثواب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیراط ثواب ہے لوگوں نے عرض کیا: دو قیراط کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پہاڑ کے برابر۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1539]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح مسلمانوں کاجنازہ پڑھنا فرض ہے۔
اسی طرح اسے دفن کرنا بھی ضروری ہے۔
ان دونوں کاموں کےلئے عام مسلمانوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔
لہٰذا جس طرح ثواب کی نیت سے نماز جنازہ میں شرکت کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی طرح قبر کھودنے، میت کودفن کرنے اور قبر کوبرابر کرنے میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
جس طرح نماز جنازہ میں میت کےلئے دعا کی جاتی ہے۔
اس طرح دفن کرنے کےبعد بھی اس کی ثابت قدمی کےلئے اور سوالوں کے جواب کی توفیق کےلئے دعا کی جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب میت کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہوکرفرماتے اپنے بھائی کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔
اور اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو۔
کیونکہ اس سے اب سوال ہورہا ہے۔ (سنن ابی داؤد، الجنائز، باب الاستغفار عند لقبر للمیت فی وقت الانصراف، حدیث: 3221)

(3)
قیراط قدیم دور کی ایک سکہ اور ایک وزن ہے۔
علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے قیراط کو دینار کا بیسواں یا چوبیسواں حصہ قرار دیا ہے۔
دیکھئے: (النھایة، مادہ قرط)
علامہ وحید الزمان رحمۃ اللہ علیہ نے قیراط کا وزن درہم کا بارہواں حصہ بتلایا ہے جس کا انداز ہ دو رتی بیان فرمایا ہے۔
آجکل گرام کے پانچویں حصے (200ملی گرام)
کو قیراط یا کیرٹ کہتے ہیں۔
حدیث میں اس سے مراد ثواب کی ایک خاص مقدار ہے جو پہاڑ کے برابر ہے۔
ایک روایت میں احد پہاڑ کے برابر کے الفاظ بھی وارد ہیں۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1540)

(4)
شاگرد کو چاہیے کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو استاد سے پوچھ لے اور استاد کو بھی دوبارہ وضاحت کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1539   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 461  
´مومن کی نماز جنازہ پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے یہاں تک کہ اس کی نماز پڑھی جائے اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص دفن ہونے کے وقت تک حاضر رہے اسے دو قیراط کے برابر اجر ملے گا . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 461]
لغوی تشریح:
«قِيرَاطٰ» قاف کے نیچے کسرہ۔ نصف دانق کو قیراط کہتے ہیں اور دانق سے مرار درہم کا چھٹا حصہ ہے۔ قیراط جلدی سمجھ میں آ جانے والا پیمانہ وزن تھا، اس لیے یہ لفظ بولا گیا ہے۔ اس زمانے میں کام کی اجرت قیراط کی صورت میں دی جاتی تھی۔ چونکہ قیراط وزن کے اعتبار سے تو بالکل معمولی اور حقیر ہے، اس لیے آپ نے تنبہیہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیراط بڑا عظیم ہے اور یہی بتانا مطلوب و مقصود تھا کہ اسے دنیاوی قیراط نہ سمجھنا بلکہ وہ پہاڑوں جتنا عظیم ہے۔
«إيمَاناً وَّاحْتِسَاباً» دونوں مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ معنی یہ ہوئے کہ جنازے میں شرکت کا مقصد صرف طلب اجر و ثواب ہو، کوئی اور غرض نہ ہو۔ دکھلاوا اور اہل میت کے ہاں حاضری لگوانے کی نیت نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں الفاظ حال واقع ہو رہے ہیں، یعنی جنازہ اسی حالت میں پڑھے کہ وہ مومن ہو اور ثواب کے لیے پرامید ہو۔ اس صورت میں «إيِمَانَا وَّاحْتِسَاباً» بمعنی «مُومَناً مُحْتَسِباً» ہوں گے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں جنازے کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ ادا کرنے کے ثواب کو تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ مومن کی نماز جنازہ پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے۔
➋ اس حدیث میں اہل ایمان کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ جنازے میں شرکت کا اہتمام کریں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 461   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:47  
47. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ایماندار ہو کر حصول ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس آتا ہے۔ ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص جنازہ پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے۔ عثمان المؤذن (راوی) نے عوف سے بیان کرنے میں رَوح (راوی) کی متابعت کی ہے، چنانچہ اس نے کہا: ہمیں عوف نے محمد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اسی کی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:47]
حدیث حاشیہ:

عام طور پر آج کل ایک رسم کے طور پر جنازے میں شرکت کی جاتی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا عزیز یا دوست ہے۔
بعض اوقات سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے بھی جنازہ پڑھا جاتا ہے، ثواب تک نظر نہیں جاتی۔
شریعت نے احتساب کا لفظ بڑھا کر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اگر اس عمل خیر کے ساتھ یہ نیت کرلیں کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کا آخری حق ادا کر رہے ہیں اور مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ اسے الوداع کر رہے ہیں تو اس سے اجر وثواب میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس سے مقصود بھی مرجیہ کی تردید ہے جنھوں نے طاعات کو ایمان سے بالکل الگ کردیا ہے۔
حدیث میں توجنازے میں شرکت کو داخل ایمان بتایا جارہا ہے، پھر اجر میں کمی بیشی کا بھی ذکر ہے کہ اگرصرف نماز میں شرکت ہوگی توایک قیراط دفن میں بھی شریک ہوں گے تو دوقیراط ملیں گے۔

دنیا کے پیمانے کے لحاظ سے ایک قیراط بارہ درہم کا ہوتا ہے، البتہ آخرت میں اجر و ثواب کے لحاظ سے ایک قیراط احد پہاڑ کےبرابر ہے، چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1325)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ روایت کی جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تصدیق کی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرمانے لگے کہ ہم نے تو بہت قیراط ضائع کردیے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1324)

جنازے کے متعلق تین چیزیں ہیں:
میت کے ساتھ رہنا، نماز میں شرکت کرنا، دفن تک ساتھ رہنا، اگرصرف دفن میں شریک ہوا تو اسے اجر تو ملے گا لیکن اجر موعود(جس کا وعدہ کیا گیا ہے)
سےمحروم ہوگا، یعنی اسے دو قیراط نہیں ملیں گے۔
صرف نماز کی شرکت یا صرف دفن کی شرکت سے ایک قیراط ملتا ہے۔
(فتح الباري: 146/1)
آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی متابعت بیان کی ہے، یعنی عثمان مؤذن نے روح کی موافقت کی ہے لیکن اس متابعت میں دولحاظ سے فرق ہے:
(الف)
روح کی روایت میں عوف راوی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتا ہے۔
جبکہ عثمان مؤذن کی روایت میں صرف محمد بن سیرین سے بیان کرتا ہے۔
(ب)
روح کی روایت باللفظ ہے جبکہ عثمان مؤذن کی روایت بالمعنی ہے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے (مثله)
کے بجائے (نحوه)
سے تعبیر کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 47