صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
93. بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ فِي غَيْرِ بُيُوتِهِنَّ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کو اس طرح پر چھوڑنا کہ ان کے گھر ہی میں نہیں گئے۔
حدیث نمبر: 5203
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا عِنْدَ أَبِي الضُّحَى، فَقَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا، فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا هُوَ مَلْآنُ مِنَ النَّاسِ، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي غُرْفَةٍ لَهُ، فَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَنَادَاهُ فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ فَقَالَ: لَا، وَلَكِنْ آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابویعفور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالضحیٰ کی مجلس میں (مہینہ پر) بحث کی تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک دن صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رو رہی تھیں، ہر زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے۔ مسجد کی طرف گیا تو وہ بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اوپر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک کمرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر سلام کیا اور اس مرتبہ بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ تو آواز دی (بعد میں اجازت ملنے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور عرض کیا: کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ایک مہینہ تک ان سے الگ رہنے کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتیس دن تک الگ رہے اور پھر اپنے بیویوں کے پاس گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 89  
´خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے`
«. . . وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ . . .»
. . . ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 89]

تشریح:
اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبرا کر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبرا کر باہر نکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آ گیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجر پیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 89   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5203  
5203. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک دن ہم نے صبح کے وقت دیکھا کہ نبی ﷺ کی بیویاں رو رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ساتھ اس کے اہل خانہ بھی جمع تھے۔ میں مسجد گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ کی طرف گئے جبکہ آپ بالا خانے میں تھی لیکن انہیں کسی نے جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا تو بھی کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ پھر سلام کیا تو بھی جواب نہ آیا۔ پھر جب کسی نے انہیں آواز دی وہ نبی ﷺ کے پاس اوپر پہنچ گئے۔ اور جاتے ہی عرض کی: آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں البتہ مہینہ بھر ان کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے اس نے بعد آپ انتیس دن تک بالاخانہ میں ٹھہرے، پھر اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5203]
حدیث حاشیہ:
اصطلاح میں اسی کو ایلاء کہا جاتا ہے یعنی مدت مقررہ کے لئے اپنی بیوی سے الگ رہنے کی قسم کھا لینا مدت پوری ہونے کے بعد ملنا جائز ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5203   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5201  
´کیا (مل کر) جدا ہو جانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے؟`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول! السلام عليكم کیا عمر اندر آ سکتا ہے ۱؎؟۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5201]
فوائد ومسائل:
یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ نے پہلی اور دوسری بار اجازت طلب کی تو نہ ملی پھر طلب کی تو مل گئی۔
اس وقفے میں آپ بار بار السلام علیکم کہتے رہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5201   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5203  
5203. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک دن ہم نے صبح کے وقت دیکھا کہ نبی ﷺ کی بیویاں رو رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ساتھ اس کے اہل خانہ بھی جمع تھے۔ میں مسجد گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ کی طرف گئے جبکہ آپ بالا خانے میں تھی لیکن انہیں کسی نے جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا تو بھی کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ پھر سلام کیا تو بھی جواب نہ آیا۔ پھر جب کسی نے انہیں آواز دی وہ نبی ﷺ کے پاس اوپر پہنچ گئے۔ اور جاتے ہی عرض کی: آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں البتہ مہینہ بھر ان کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے اس نے بعد آپ انتیس دن تک بالاخانہ میں ٹھہرے، پھر اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5203]
حدیث حاشیہ:
(1)
خاوند کو عورتوں کی نافرمانی اور ان کی منہ زوری سے روکنے کے لیے تین اقدام کرنے کی اجازت دی گئی ہے:
٭ وعظ و نصیحت ٭ اپنے بستروں سے انھیں علیحدہ کرنا ٭ انھیں ہلکا پھلکا زد و کوب کرنا۔
ان سے علیحدگی اختیار کرنے کی دو صورتیں ممکن ہیں:
٭گھر میں رہتے ہوئے ان سے قطع تعلقی کر لی جائے۔
٭گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں خلوت نشینی اختیار کی جائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت کیا ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موقع محل اور عورت کے مزاج کے مطابق کسی بھی جگہ کو گوشہ نشینی کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔
بعض دفعہ گھر میں علیحدگی کار گر ثابت ہوتی ہے جبکہ کسی موقع پر گھر کے علاوہ دوسری جگہ پر علیحدگی اختیار کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 374/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5203