صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
94. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ:
باب: عورتوں کو مارنا مکروہ ہے۔
وَقَوْلِ اللَّهِ: وَاضْرِبُوهُنَّ سورة النساء آية 34 أَيْ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ.
‏‏‏‏ اور اللہ کا فرمانا کہ اور انہیں اتنا ہی مارو جو ان کے لیے سخت نہ ہو۔
حدیث نمبر: 5204
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ يُجَامِعُهَا فِي آخِرِ الْيَوْمِ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے کہ پھر دوسرے دن اس سے ہمبستر ہو گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1983  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا؟ ہو سکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1983]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں کو غلطی پر تنبیہ کرناضروری ہے لیکن یہ صرف زبانی ہونی چاہیے۔
اگر کوئی عورت زیادہ ہی بے پروا اور گستاخ ہو تو اس سے ناراض ہو جائے، یہ سزا کافی ہے۔
جسمانی سزا صرف اس وقت جائز ہےجب اس سوا چارہ نہ رہے۔

(2)
لونڈی کی طرح پیٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ لونڈی کو بے تحاشا مارنا جائز ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح لوگ لونڈیوں کومارتے ہیں، آپ کو اپنی بیویوں سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔
ان کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔
اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہو ئے عورتوں پر ناجائز سختی نہیں کرنی چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1983   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 913  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 913»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، حديث:5204.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبد اللہ بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ اسدی۔
مشہور صحابی ہیں۔
ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے۔
یہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے روز شہید ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 913   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5204  
5204. سیدنا عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے پھر دوسرے دن اس سے ہم بستری بھی کرنی ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5204]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کے مطابق بیوی کو مارنا درست نہیں جبکہ قرآن میں اس کی اجازت دی گئی ہے؟ ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ ایسی مار نہ ہو جس سے زخم آ جائیں، چنانچہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ اگر عورتیں کھلی بے حیائی کریں تو تم انھیں بستروں سے علیحدہ کر دو اور ایسی مار دو کہ انھیں چوٹ نہ آئے۔
(جامع الترمذی، الرضاع، حدیث: 1163)
(2)
بہرحال چند شرائط کے ساتھ عورتوں کو مارنے کی اجازت ہے۔
٭اسے غلاموں کی طرح بے تحاشا نہ مارے۔
٭ بیوی کے منہ پر نہ مارے۔
٭ایسی مار نہ ہو جس سے کوئی زخم آ جائے یا کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔
ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو مجبوری کی حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔
(3)
واضح رہے کہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خاوند اپنی بیوی کو مار سکتا ہے:
٭نماز چھوڑنے پر٭ غسل بروقت نہ کرنے پر٭ زینت ترک کرنے پر٭ اپنے پاس بلانے کے باوجود اس کے نہ آنے پر٭ بلا اجازت گھر سے باہر جانے پر۔
اس بنا پر بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی رمز شناس ہو اور ہر حکم کی اطاعت گزار ہو بشرطیکہ وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5204