صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
96. بَابُ: {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا} :
باب: اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے نفرت اور منہ موڑنے کا خوف ہو۔
حدیث نمبر: 5206
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا، قَالَتْ:" هِيَ الْمَرْأَةُ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَا يَسْتَكْثِرُ مِنْهَا فَيُرِيدُ طَلَاقَهَا وَيَتَزَوَّجُ غَيْرَهَا، تَقُولُ لَهُ: أَمْسِكْنِي وَلَا تُطَلِّقْنِي، ثُمَّ تَزَوَّجْ غَيْرِي فَأَنْتَ فِي حِلٍّ مِنَ النَّفَقَةِ عَلَيَّ وَالْقِسْمَةِ لِي، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ سورة النساء آية 128".
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏» اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت اور منہ موڑنے کا خوف محسوس کرے۔ کے متعلق فرمایا کہ آیت میں ایسی عورت کا بیان ہے جو کسی مرد کے پاس ہو اور وہ مرد اسے اپنے پاس زیادہ نہ بلاتا ہو بلکہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے بجائے دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو لیکن اس کی موجودہ بیوی اس سے کہے کہ مجھے اپنے ساتھ ہی رکھو اور طلاق نہ دو۔ تم میرے سوا کسی اور سے شادی کر سکتے ہو، میرے خرچ سے بھی تم آزاد ہو اور تم پر باری کی بھی کوئی پابندی نہیں تو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں «فلا جناح عليهما أن يصالحا بينهما صلحا والصلح خير‏» کہ پس ان پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ آپس میں صلح کر لیں اور صلح بہرحال بہتر ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5206  
5206. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی طرف سے نفرت یا ر و گردانی کا خطرہ محسوس کرے۔ انہوں نے فرمایا: اس آیت کریمہ میں ایسی عورت کا بیان ہے جو کسی مرد کے پاس ہو جو اس سے میل جول نہ رکھتا ہو بلکہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے علاوہ کسی دوسری عورت سے شادی رچانے کا پروگرام رکھتا ہو لیکن اس کی موجودہ بیوی اپنے خاوند سے کہے: مجھے اپنے ساتھ ہی رکھو اور طلاق نہ دو، تم میرے علاوہ کسی بھی عورت سے شادی کر سکتے ہو۔ میرے نان و نفقہ سے تم آزاد ہو نیز تم پر میری باری کی بھی کوئی پابندی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس قسم کی باتوں کا ذکر ہے: ان پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ باہمی صلح کرلیں صلح بہر حال بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5206]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے طلاق دینے کا خطرہ لاحق ہوا تو انھوں نے آپ سے عرض کی:
آپ مجھے طلاق نہ دیں،میں اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی کیا۔
اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی، گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3040) (2)
اس آیت کریمہ میں صلح سے مراد مہر کم کرنا یا بالکل معاف کر دینا، اپنی باری چھوڑ دینا، نان و نفقہ سے دستبردار ہو جانا اور شوہر کو کوئی ایسی چیز ہبہ کرنا جس سے اس کا میلان ہو۔
بہرحال طلاق دینے سے صلح بہتر ہے کیونکہ اس سے باہمی جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔
اس قسم کی صلح پر امت کا اتفاق ہے۔
(عمدة القاري: 180/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5206