صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
99. بَابُ الْمَرْأَةِ تَهَبُ يَوْمَهَا مِنْ زَوْجِهَا لِضَرَّتِهَا وَكَيْفَ يُقْسِمُ ذَلِكَ:
باب: عورت اپنے شوہر کی باری اپنی سوکن کو دے سکتی ہے اور اس کی تقسیم کس طرح کی جائے؟
حدیث نمبر: 5212
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِيَوْمِهَا وَيَوْمِ سَوْدَةَ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، اس سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں خود ان کی باری کے دن اور سودہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن رہتے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1972  
´عورت کا اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں، تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1972]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  خاوند کا باری کے مطابق اپنی بیوی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔

(2)
باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے۔
مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾ (الأحزاب: 51)
 ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے۔
اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا ئے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔
 اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے۔
یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1972   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 909  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کا اپنا دن بھی اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا دن بھی تقسیم کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 909»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها....، حديث:5212، ومسلم، الرضاع، باب جواز هبتها نوبتها لضرتها، حديث:1463.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی بیوی اپنی باری دوسری بیوی کو دے سکتی ہے۔
یہ بخشش ناقابل رجوع اور ناقابل واپسی ہوگی بشرطیکہ ایام کی تعیین نہ کی گئی ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 909   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5212  
5212. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ‬ ؓ ن‬ے اپنی باری سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے لیے ہبہ کر دی تھی اور نبی ﷺ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس خود ان کی باری کے دن اور سیدہ سودہ‬ ؓ ک‬ی باری کے دن رہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5212]
حدیث حاشیہ:
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بڑھاپے میں ایسا کر دیا تھا تا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم طلاق نہ دے دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5212   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5212  
5212. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ‬ ؓ ن‬ے اپنی باری سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے لیے ہبہ کر دی تھی اور نبی ﷺ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس خود ان کی باری کے دن اور سیدہ سودہ‬ ؓ ک‬ی باری کے دن رہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5212]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب عمر رسیدہ ہو گئیں اور انھیں خطرہ محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنے سے جدا کر دیں گے تو انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! میں اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا۔
(سنن أبی داود، النکاح، حدیث: 2135) (2)
جب کوئی اپنی باری کا دن سوکن کو ہبہ کر دے تو اسے وہی دن ملے گا جو اس کی باری کا ہے۔
اگر اس کے متصل ہے تو مسلسل دو دن اس کے ہوں گے، بصورت دیگر ان دنوں میں فاصلہ ہوگا۔
اگر باقی بیویاں اگلے دنوں پر راضی ہوں تو اسے اکٹھے دو دن بھی مل سکتے ہیں۔
(فتح الباري: 388/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5212