صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
101. بَابُ إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ:
باب: اگر کسی کے پاس ایک بیوہ عورت اس کے نکاح میں ہو پھر ایک کنواری سے بھی نکاح کرے تو جائز ہے۔
{وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَاسِعًا حَكِيمًا}.
‏‏‏‏ اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا «ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء‏» کہ اگر تم اپنی کئی بیویوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو (تو ایک ہی عورت سے شادی کرو)۔ آخر آیت «واسعا حكيما‏» تک۔
حدیث نمبر: 5213
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَكِنْ قَالَ:" السُّنَّةُ: إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، ان سے خالد حذاء نے، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے (راوی ابوقلابہ یا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (آنے والی حدیث) ارشاد فرمائی۔ لیکن بیان کیا کہ دستور یہ ہے کہ جب کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن تک رہنا چاہئے اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک رہنا چاہئے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 907  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 907»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا تزوج الثيب علي البكر، حديث:5214، مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من إقامة الزوج عندها عقبالزفاف، حديث:1461.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نئی بیوی کے ساتھ زفاف کی راتیں بسر کرنا اس کا حق ہے اور دوسری بیویوں پر اسے ترجیح دی جائے گی۔
یہ مدت ختم ہونے کے بعد پھر نئی اور پرانی بیویاں باریوں کی تقسیم میں مساوی استحقاق رکھتی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 907   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2124  
´کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2124]
فوائد ومسائل:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔

2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2124   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5213  
5213. سیدنا انس‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے کہا: سنت یہ ہے کہ جب آدمی کسی (شوہر دیدہ بیوی کی موجودگی میں) کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس دن گزارے اور جب کنواری کی موجودگی میں شوہر دیدہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5213]
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد باری باری دونوں کے پاس رہا کرے۔
نئی بیوی کو خاوند سے ذرا وحشت ہوتی ہے خصوصاً کنواری کو جس کے لئے سات دن اس لئے مقرر کئے کہ اس کی وحشت دور ہو کر اس کا دل مل جائے اس کے بعد پھر باری باری رہے تاکہ انصاف کے خلاف نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5213   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5213  
5213. سیدنا انس‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے کہا: سنت یہ ہے کہ جب آدمی کسی (شوہر دیدہ بیوی کی موجودگی میں) کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس دن گزارے اور جب کنواری کی موجودگی میں شوہر دیدہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5213]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ مسنون اس لیے ہے کہ کنواری میں شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے۔
وہ محبت اور مہر و وفا کی بھی زیادہ حقدارہے، لہٰذا اس کے لیے سات دن مقرر کیے گئے ہیں تاکہ اس کی وحشت دور ہو جائے اور اس کا دل لگ جائے، نیز وہ آسانی اور شوہر کی نرمی کو پسند کرتی ہے جبکہ شوہر دیدہ کے لیے تین دن اس لیے مقرر ہیں کہ وہ جلدی مانوس ہو جاتی ہے اور ماحول میں گھل مل جاتی ہے۔
اس نے چونکہ شوہر کا تجربہ کیا ہوتا ہے اور جماع کی وجہ سے اس کی حیا بھی کم ہوتی ہے۔
(2)
واضح رہے کہ یہ وہ ایام ہوں گے جو میل ملاپ میں مانع نہ ہوں اور ان میں عورت کو حیض نہ آتا ہو۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5213