صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
102. بَابُ إِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى الْبِكْرِ:
باب: کنواری بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی نے بیوہ عورت سے شادی کی تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 5214
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَخَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" مِنَ السُّنَّةِ: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، وَقَسَمَ وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى الْبِكْرِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَسَمَ". قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: وَلَوْ شِئْتُ لَقُلْتُ: إِنَّ أَنَسًا رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، وَخَالِدٍ، قَالَ خَالِدٌ: وَلَوْ شِئْتُ، قُلْتُ: رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے ایوب اور خالد نے دونوں نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دستور یہ کہ جب کوئی شخص پہلے سے شادی شدہ بیوی کی موجودگی میں کسی کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے اور جب کسی کنواری بیوی کی موجودگی میں پہلے سے شادی شدہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ اور عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ایوب اور خالد نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کی ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 907  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 907»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا تزوج الثيب علي البكر، حديث:5214، مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من إقامة الزوج عندها عقبالزفاف، حديث:1461.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نئی بیوی کے ساتھ زفاف کی راتیں بسر کرنا اس کا حق ہے اور دوسری بیویوں پر اسے ترجیح دی جائے گی۔
یہ مدت ختم ہونے کے بعد پھر نئی اور پرانی بیویاں باریوں کی تقسیم میں مساوی استحقاق رکھتی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 907   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2124  
´کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2124]
فوائد ومسائل:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔

2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2124   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5214  
5214. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا، سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص شوہر دیدہ بیوی موجودگی میں کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات دن تک قیام کرے پھر باری کا آغاز کرے۔ اورجب کسی کنواری بیوی کی موجودگی میں کسی شوہر دیدی سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک قیام کرے پھر بار کا اہتمام کرے ابوقلابہ نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ سیدنا انس ؓ نے یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے (راوی حدیث) خالد نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ سیدنا انس ؓ نے یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5214]
حدیث حاشیہ:
كچھ حضرات کا موقف ہے کہ شوہر دیدہ اور کنواری کے لیے تین دن ہی قیام کیا جائے ان کا کہنا ہے کہ کنواری کے پاس سات دن اور شوہر دیدہ کے پاس تین دن عدل و انصاف کے منافی ہے لیکن یہ موقف مذکورہ احادیث کے خلاف ہے، نیز ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو آپ نے ان سے فرمایا:
آپ کا خاندان میرے ہاں انتہائی قابل احترام ہے، اگر آپ چاہتی ہیں تو آپ کے لیے سات دن تک قیام کرسکتا ہوں لیکن اس صورت میں باقی بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہوں گا، پھر باری مقرر کی جائے گی۔
اور اگر آپ چاہیں تو آپ کے ہاں تین دن قیام کر کے اس کے فوراً بعد باری مقرر کر دی جائے گی۔
تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
آپ میرے پاس تین دن ہی قیام رکھیں۔
(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3622 (1460)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5214