صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
108. بَابُ الْغَيْرَةِ:
باب: غیرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5224
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ:" تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ نَاضِحٍ وَغَيْرَ فَرَسِهِ، فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرِزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَكَانَ يَخْبِزُ جَارَاتٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ مِنِّي عَلَى ثُلُثَيْ، فَرْسَخٍ، فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَدَعَانِي، ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ، لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسِيرَ مَعَ الرِّجَالِ وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ وَغَيْرَتَهُ وَكَانَ أَغْيَرَ النَّاسِ، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي قَدِ اسْتَحْيَيْتُ، فَمَضَى، فَجِئْتُ الزُّبَيْرَ، فَقُلْتُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِي النَّوَى وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَنَاخَ لِأَرْكَبَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى كَانَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ، قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ يَكْفِينِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَنِي".
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبیلہ انصار کے کئی آدمی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر (اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے) کہا اخ اخ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہی باغیرت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی تھی۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اونٹ مجھے بٹھانے کے لیے بٹھایا لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لیے نکلے اگر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء رضی اللہ عنہا آپ کی سالی اور بھاوج دونوں ہوتی تھیں) اس کے بعد میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بےفکر ہو گئی گویا والد ماجد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5224  
5224. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا زبیر ؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس پانی لانے والے ایک اوںٹ اور ایک گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، الغرض کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کے گھوڑےکو چارہ ڈالتی اور پانی پلاتی تھی نیز ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ میری ہمسائیاں انصاری عورتیں روٹیاں پکا دیتی تھیں۔ وہ بڑی اچھی اور با وفا خواتین تھیں۔ سیدنا زبیر ؓ کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نےانہیں دی تھی، میں وہاں سے اپنے گھر دو میل کے فاصلے پر تھی، ایک روز میں آ رہی تھی جبکہ گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ آپ کے ہمراہ قبیلہ انصار کے چند لوگ بھی تھے۔ آپ نے بلایا اور اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے اخ اخ کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ہمراہ چلنے میں شرم محسوس ہوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5224]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ حجاب کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے خاص تھا اور ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ حجاب (پردہ)
کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے اور عورتوں کی ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنے منہ کو بیگانے مردوں سے ڈھانکتی یعنی گھونگٹ کرتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5224   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5224  
5224. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا زبیر ؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس پانی لانے والے ایک اوںٹ اور ایک گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، الغرض کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کے گھوڑےکو چارہ ڈالتی اور پانی پلاتی تھی نیز ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ میری ہمسائیاں انصاری عورتیں روٹیاں پکا دیتی تھیں۔ وہ بڑی اچھی اور با وفا خواتین تھیں۔ سیدنا زبیر ؓ کی وہ زمین جو رسول اللہ ﷺ نےانہیں دی تھی، میں وہاں سے اپنے گھر دو میل کے فاصلے پر تھی، ایک روز میں آ رہی تھی جبکہ گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ آپ کے ہمراہ قبیلہ انصار کے چند لوگ بھی تھے۔ آپ نے بلایا اور اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے اخ اخ کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ہمراہ چلنے میں شرم محسوس ہوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5224]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک قطعۂ ارضی الاٹ کیا تھا، وہ اس کے مالک نہ تھے بلکہ اس سے حاصل شدہ منافع لیتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اسے مستثنیٰ نہیں کیا، حالانکہ یہ سہولیات بھی انھیں مدینہ طیبہ میں میسر تھیں۔
(2)
اس حدیث میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا ذکر ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار نہ تھی اور نہ یہ غیرت ہی کے منافی تھا، البتہ سر پر گٹھلی اٹھانے میں لوگ ذلت و خواری محسوس کرتے ہیں اور اسے قلت غیرت پر محمول کرتے ہیں۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے شوہر نامدار جہاد میں مصروف رہتے تھے، اس لیے گھر اور باہر کا کام کاج حضرت اسماء رضی اللہ عنہ خود کرتی تھیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جن امور کا شوہر محتاج ہو، انھیں بجالانا بیوی کی ذمہ داری ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5224