صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
108. بَابُ الْغَيْرَةِ:
باب: غیرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5227
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا لِعُمَرَ، فَذَكَرْتُ غَيْرَتَكَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَبَكَى عُمَرُ وَهُوَ فِي الْمَجْلِسِ، ثُمَّ قَالَ: أَوَعَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَارُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خواب میں میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک محل کے کنارے ایک عورت وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتے نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا۔ میں ان کی غیرت کا خیال کر کے واپس چلا آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت مجلس میں موجود تھے اس پر رو دیئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث107  
´عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا: اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، پھر اچانک میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ ایک محل کے کنارے وضو کر رہی ہے، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ اس عورت نے کہا: عمر کا (مجھے عمر کی غیرت یاد آ گئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس ہو گیا)۔‏‏‏‏ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ سے غیرت کروں گا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 107]
اردو حاشہ:
(1)
انبیاء علیھم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، لہذا یہ خواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قطعی جنتی ہونے کی دلیل ہے۔

(2)
محل کے قریب وضو کرنے سے غالبا یہ مراد ہے کہ محل سے ملحق باغ میں ندی سے وضو کر رہی تھی۔
گویا اس طرح وہ محل ہی میں تھی۔
واللہ أعلم۔

(3)
قائد اور لیڈر کو اپنے ساتھیوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے، خاص طور پر ان کی عزت کو اپنی عزت سمجھنا چاہیے۔

(4)
اس سے اس عقیدت اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، خصوصا کبار صحابہ رضی اللہ عنھم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھتے تھے۔
چونکہ نبی سے محبت ایمان کا جز ہے، اس لیے اس محبت کی شدت بھی ایمان کی قوت اور کمال کی علامت ہے۔

(5)
جنت میں حدث اور نجاست نہیں ہو گی، لہذا یقینا یہ وضو نظافت ولطافت کی خاطر ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5227  
5227. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خود کو بحالت خواب جنت میں دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت محل کے کونے میں بیٹھی وضو کررہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ فرشتے نے کہا: یہ محل سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا ہے۔ مجھے عمر ؓ کی غیرت یاد آگئی تو وہاں سے واپس چلا آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو مجلس میں تھے ور پڑے اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5227]
حدیث حاشیہ:
یہ رونا خوشی کا تھا، اللہ کا فضل وکرم اور نوازش کا خیال کرکے کہ حق تعالیٰ نے مجھ ناچیز پر یہ سرفراز ی فرمائی کہ بہشت بریں میں میرے لئے ایسا عالی شان محل تیار کیا اسی لئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو آپ کا ادنیٰ خادم ہوں اور میری بیویاں حوریں وغیرہ سب آپ کی خادمہ بھلا میں آپ پر کیا غیرت کر سکتا ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5227   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5227  
5227. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خود کو بحالت خواب جنت میں دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت محل کے کونے میں بیٹھی وضو کررہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ فرشتے نے کہا: یہ محل سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا ہے۔ مجھے عمر ؓ کی غیرت یاد آگئی تو وہاں سے واپس چلا آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو مجلس میں تھے ور پڑے اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5227]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی حدیث میں احتمال تھا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداری کے عالم میں جنت کا مشاہدہ کیا ہو لیکن دوسری حدیث نے اس احتمال کو ختم کردیا کہ جنت میں بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں داخل ہوئے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث غالباً اس لیے ذکر کی ہے۔
(فتح الباری: 9/404) (2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رونا خوشی کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھ ناچیز پر یہ عنایت فرمائی کہ بہشت بریں میں میرے لیےعالی شان محل تیار کیا۔
آپ نے اپنے جذبات کا اظہار اس لیے کیا کہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور آپ کی بیویاں اور جنت میں ملنے والی حوریں سب آپ کی خادمائیں ہیں، بھلا ایسے حالات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس طرح غیرت کرسکتے ہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5227