صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
114. بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ دُخُولِ الْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْمَرْأَةِ:
باب: زنانے اور ہیجڑے سفر میں عورتوں کے پاس نہ آئیں۔
حدیث نمبر: 5235
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا وَفِي الْبَيْتِ مُخَنَّثٌ، فَقَالَ الْمُخَنَّثُ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ: إِنْ فَتَحَ اللَّهُ لَكُمْ الطَّائِفَ غَدًا أَدُلُّكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلَنَّ هَذَا عَلَيْكُنَّ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے، گھر میں ایک مغیث نامی مخنث بھی تھا۔ اس مخنث (ہیجڑے) نے ام سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر کل اللہ نے تمہیں طائف پر فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کو دکھلاؤں گا کیونکہ وہ سامنے آتی ہے تو (مٹاپے کی وجہ سے) اس کے چار شکنیں پڑ جاتی ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو آٹھ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ام سلمہ سے) فرمایا کہ یہ (مخنث) تمہارے پاس اب نہ آیا کرے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1902  
´ہیجڑوں کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، وہاں ایک ہیجڑے کو سنا جو عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا: اگر اللہ کل طائف کو فتح کر دے گا تو میں تم کو ایک عورت بتاؤں گا جو سامنے آتی ہے چار سلوٹوں کے ساتھ اور پیچھے مڑتی ہے آٹھ سلوٹوں کے ساتھ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1902]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
مخنث دو طرح کے ہوتے ہیں:
ایک وہ جو پیدائشی طور پر صنفی طاقت سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں اس قسم کے جذبات بھی نہیں ہوتے۔
دوسرے جو مرادانہ صفات کے حامل ہونے کے باوجود زنانہ وضع قطع اختیار کرتے ہیں۔
پہلی قسم کے افراد اگر صنفی امور سے بالکل غافل ہوں اور ان کی توجہ صرف کھانے پینے کی طرف ہو تو ان سے پردہ کرنے کے حکم میں سختی نہیں البتہ اگر وہ صنفی امور سے واقف ہوں اور اس قسم کی بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے عام مردوں کی طرح پردہ کرنا چاہیے۔

(2)
جو شخص پیدائشی طور پر مرد ہو لیکن وہ عورتوں کا لباس پہنے اور ان کی سی وضع قطع اختیار کرے اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
مرد ہو کر عورت بننا لعنت کا باعت ہے۔

(3)
غیر محرم مرد یا مخنث کو بے جھجک عورتوں کے پاس نہیں چلے جانا چاہیے۔
اگر وہ آجائے تو عورتوں کو چاہیے کہ پردہ کرلیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1902   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4929  
´ہجڑوں کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے ان کے پاس ایک ہجڑا بیٹھا ہوا تھا اور وہ ان کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا: اگر کل اللہ طائف کو فتح کرا دے تو میں تمہیں ایک عورت بتاؤں گا، کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چار سلوٹیں لے کر آتی ہے، اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۱؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «تقبل بأربع» کا مطلب ہے عورت کے پیٹ میں چار سلوٹیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ میں چربی چھا جانے کی وجہ سے خوب موٹی اور تیار ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4929]
فوائد ومسائل:
فسادی مزاج افراد کو گھروں میں آنے جانے کا موقع دینا معاشرے میں فساد بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
اس لیے اپنے گھروں کو ان سے پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔
تو موجودہ دور کے ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش، کیبل، نیز عریاں تصاویر والے رسالے اخبارات رسالے سبھی اسی ضمن میں آتے ہیں اور فی الواقع ان چیزوں کے نا گفتہ بہ اثرات بھی ہمارے گھروں اور ماحول میں نمایاں ہیں۔
و إلی اللہ المشتکی۔
ان سے چھُٹکارا حاصل کرنا واجب ہے۔
باب نمبر 54: گڑیوں سے کھیلنے کا بیان۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4929   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5235  
5235. سیدہ ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ ان کے ہاں تشریف فرما تھے جبکہ گھر میں ایک مخنث (ہیجڑا) بھی تھا۔ اس نے ام سلمہ‬ ؓ ک‬ے بھائی عبداللہ بن امیہ سے کہا: اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہیں طائف میں فتح دی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا۔ جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن پڑتے ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو یہ شکن آٹھ ہو جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے (اس کی بات سن کر) فرمایا: آئندہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5235]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ جب یہ عورتوں کے حسن و قبح کو پہچانتا ہے تو تمہارے حالات بھی جا کر اور مردوں سے بیان کرے گا۔
حافظ نے کہا اس حدیث سے ان لوگوں سے بھی پردے کا حکم نکلتا ہے جو عورتوں کا حسن و قبح پہچانیں، اگرچہ وہ زنانے یا ہیجڑے ہی کیوں نہ ہوں۔
بعد میں حضرت غیلان اور ان کی یہ لڑکیاں مسلمان ہو گئے تھے۔
غیلان کے گھر دس عورتیں تھیں، آپ نے چار کے علاوہ اوروں کے چھوڑ دینے کا اس کو حکم فرمایا۔
(خیر الجاري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5235   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5235  
5235. سیدہ ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ ان کے ہاں تشریف فرما تھے جبکہ گھر میں ایک مخنث (ہیجڑا) بھی تھا۔ اس نے ام سلمہ‬ ؓ ک‬ے بھائی عبداللہ بن امیہ سے کہا: اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہیں طائف میں فتح دی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا۔ جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن پڑتے ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو یہ شکن آٹھ ہو جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے (اس کی بات سن کر) فرمایا: آئندہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5235]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہیجڑوں کی دوقسمیں ہیں:
ایک وہ جو پیدائشی ہوتے ہیں، وہ تو عورتوں کے حکم میں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے منع نہیں فرمایا۔
دوسرے وہ جو تکلف سے ہیجڑے بنتے ہیں، یہ حرکت قابل مذمت ہے اور ایسے لوگوں کو عورتوں کے پاس آنا منع ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان لوگوں سے بھی عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے جو عورتوں حسن و قبح کے (خوبصورتی اور بدصورتی)
کو پہچانتے ہوں اگرچہ وہ زنانے اور ہیجڑے ہی کیوں نہ ہوں۔
(فتح الباري: 417/9)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قسم کے تمام ہیجڑوں کو مدینہ طیبہ سے نکال دیا تھا تاکہ یہ مدینے کی فضا خراب نہ کریں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5235