صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
122. بَابُ طَلَبِ الْوَلَدِ:
باب: جماع سے بچہ کی خواہش رکھنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5246
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا دَخَلْتَ لَيْلًا فَلَا تَدْخُلْ عَلَى أَهْلِكَ حَتَّى تَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ وَتَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ"، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَعَلَيْكَ بِالْكَيْسِ الْكَيْسِ". تَابَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي الْكَيْسِ.
ہم سے محمد بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سیار نے، ان سے شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت) فرمایا، جب رات کے وقت تم مدینہ میں پہنچو تو اس وقت تک اپنے گھروں میں نہ جانا جب تک ان کی بیویاں جو مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے، اپنا موئے زیر ناف صاف نہ کر لیں اور جن کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھا نہ کر لیں۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ضروری ہے کہ جب تم گھر پہنچو تو خوب خوب «كيس» کیجؤ۔ شعبی کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ نے بھی وہب بن کیسان سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، اس میں بھی «كيس» کا ذکر ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2712  
´بیوی کے پاس سفر سے رات میں واپس آنا مکروہ ہے۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کر آنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2712]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رات میں سفر سے واپس آ کر اپنے گھر والوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو،
اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2712   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2776  
´رات میں سفر سے گھر واپس آنا کیسا ہے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2776]
فوائد ومسائل:
مقصد یہ ہے کہ انسان طویل غیر حاضری کے بعد بغیر پیشگی اطلاع کے بے وقت اچانک بالخصوص عشاء کے بعد گھر میں نہ آئے۔
اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
ممکن ہے گھر والے صاحب خانہ کی طرف سے مطمئین ہوکر کہیں باہر جانے کا پروگرام بنا لیں یا آنے والے کی بیوی اپنی اور گھر کی صفائی ستھرائی کی جانب سے غفلت کرلے یا کوئی ایسا مہمان بھی گھر میں آسکتا ہے۔
جس کا آنا گھر والے کو ناگوار ہو اس طرح دونوں میاں بیوی کے درمیان کئی طرح کی انہونی الجھنیں راہ پاسکتی ہیں۔
ہاں اگر اطلاع دے دی گئی ہو تو کسی بھی وقت آنا چاہیے۔
تو آسکتا ہے۔
اس کا اپنا گھر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5246  
5246. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم رات کے وقت (اپنے شہر) آؤ تو اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت مت آؤ جب تک وہ عورتیں جن کے خاوند تادیر باہر رہے ہیں اپنے زیر ناف بال صاف نہ کرلیں اور پراگندہ بالوں میں کنگھی نہ کرلیں۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ پر جماع کرنے سے فرزند کی طلب ضروری ہے۔ عبید الله نے وہب اور سیدنا جابر ؓ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے کیس کے الفاظ بیان کرنے میں شعبی کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5246]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت کتاب البیوع میں موصولاً گزر چکی ہے۔
ابو عمرو توقانی نے اپنی کتاب ''معاشرة الأھلین'' میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اولاد ڈھونڈو، اولاد ثمرئہ قلب اور نور چشم ہے اور بانجھ عورت سے پر ہیز کرو۔
اسی واسطے ایک حدیث میں آیا ہے کہ بانجھ عورت سے بچو۔
دوسری حدیث میں ہے کہ خاوند سے محبت رکھنے والی، بہت بچے جننے والی سے نکاح کرو، میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔
شادی کرنے سے آدمی کو اصل غرض یہی رکھنی چاہئے کہ اولاد صالح پیدا ہو جو مرنے کے بعد دنیا میں اس کی نشانی رہے۔
اس کے لیے دعائے خیر کرے۔
اسی لیے باقیات الصالحات میں اولاد کو اول درجہ حاصل ہے۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو نیک فرمانبردار اور صالح اولاد عطا کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5246   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5246  
5246. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم رات کے وقت (اپنے شہر) آؤ تو اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت مت آؤ جب تک وہ عورتیں جن کے خاوند تادیر باہر رہے ہیں اپنے زیر ناف بال صاف نہ کرلیں اور پراگندہ بالوں میں کنگھی نہ کرلیں۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ پر جماع کرنے سے فرزند کی طلب ضروری ہے۔ عبید الله نے وہب اور سیدنا جابر ؓ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے کیس کے الفاظ بیان کرنے میں شعبی کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5246]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بیوی سے جماع کا مقصد محض لطف اندوزی نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرزند کے حصول کی نیت ہونی چاہیے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اولاد کی طلب کرو اور اس کی تلاش میں رہو، اولاد ثمرۂ قلب اور نور چشم ہے اور بانجھ عورت سے اجتناب کرو۔
(فتح الباري: 423/9) (2)
انسان کو نکاح کرتے وقت یہ عظیم مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ نیک اولاد پیدا ہو جو مرنے کے بعد دنیا میں اچھی نشانی کے طور پر باقی رہے۔
اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔
باقیات صالحات (باقی رہنے والی نیکیوں)
میں نیک اولاد کو پہلا درجہ حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اور فرمانبردار اولاد عطا فرمائے۔
آمين
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5246