صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
24. بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ:
باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 5296
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ:" الْفِتْنَةُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَشَارَ إِلَى الْمَشْرِقِ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فتنہ ادھر سے اٹھے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

وضاحت: باب اور حدیث میں مناسبت جاننےکے لیے آپ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5293 کے فوائد و مسائل از الشیخ محمد حسین میمن دیکھیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 547  
´فتنوں کی سرزمین عراق ہے`
«. . . 293- وبه: أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير إلى المشرق، يقول: ها، إن الفتنة هاهنا، إن الفتنة ها هنا، من حيث يطلع قرن الشيطان. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: سنو! یقیناً فتنہ یہاں ہے، یقیناً فتنہ یہاں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ (بڑا فتنہ) نکلے گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 547]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3279، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مشرق سے مراد عراق کا علاقہ ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
➋ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے حدیث سابق: بخاری(1525) ومسلم (1182)
➌ شیطان کے سینگ سے مراد بڑا فتنہ ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے غیب کی جو خبریں بتائی ہیں وہ من وعن پوری ہوکر رہیں گی۔
➎ قیامت کی بہت سی نشانیوں کا ظہور ابھی تک باقی ہے۔
➏ یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔
➐ اللہ کے سچے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا ہے۔
➑ عراق میں بہت سے فتنے ہوئے تھے مثلاً شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ۔ دیکھئے [التمهيد 17/12]
یعنی فتنہ پردازوں اور ظالموں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تھا جو کہ بہت بڑا ظلم ہے۔ عراق کربلاء (کرب وبلاء) میں ظالم اور مظلوم کے درمیان جو معرکہ ہوا اس کا خمیازہ ابھی تک اُمت بھگت رہی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 293   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2268  
´ایسے زمانے کی پیشین گوئی جس میں تھوڑی نیکی بھی باعث نجات ہو گی۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: فتنے کی سر زمین وہاں ہے اور آپ نے مشرق (پورب) کی طرف اشارہ کیا یعنی جہاں سے شیطان کی شاخ یا سینگ نکلتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2268]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے فتنہ کا ظہور مدینہ کی مشرقی جہت (عراق) سے ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2268   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5296  
5296. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: فتنہ ادھر سے آئے گا۔ اور آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5296]
حدیث حاشیہ:
یعنی مشرقی ممالک کی طرف۔
اس حدیث میں کسی شخص کا نام مذکور نہیں بلکہ جو شخص کی طرف سے نمودار ہو اور گمراہی اور بے دینی کی دعوت دے وہ اس سے مراد ہو سکتا ہے اور تعجب ہے ان لوگوں پر جنہوں نے حضرت امام محمد بن عبدالوہاب کو اس فتنہ سے مراد لیا ہے۔
حضرت امام محمد بن عبدالوہاب تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے۔
انہوں نے اہل مکہ کو جو رسالہ لکھ کر بھیجا ہے اس میں صاف یہ مرقوم ہے کہ قرآن اور صحیح حدیث ہمارے اور تمہارے درمیان حکم ہے، اس پر عمل کرو۔
البتہ ممالک مشرقی میں سید احمد خان رئیس النیا چرہ اور مرزا غلام احمد قادیانی اس حدیث کے مصداق ہو سکتے ہیں۔
ہمارے استاد مولانا بشیر الدین صاحب قنوجی محدث فرماتے تھے کہ مشرق سے مراد بدایون کا قصبہ ہے وہیں سے فضل رسول ظاہر ہوا جس نے دنیا میں بہت سی بدعتیں پھیلائیں اور اہلحدیث اور اہل توحید کو کافر قرار دیا (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5296