صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
24. بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ:
باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 5297
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ:" كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ لِرَجُلٍ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ جب سورج ڈوب گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے) انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اندھیرا ہونے دیں تو بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ اور اندھیرا ہو لینے دیں تو بہتر ہے، ابھی دن باقی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اترو اور ستو گھول لو۔ آخر تیسری مرتبہ کہنے پر انہوں نے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ستو گھولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہیئے۔

وضاحت: باب اور حدیث میں مناسبت جاننےکے لیے آپ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5293 کے فوائد و مسائل از الشیخ محمد حسین میمن دیکھیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2352  
´روزہ افطار کرنے کے وقت کا بیان۔`
سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اور شام ہو جانے دیں تو بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اللہ کے رسول! ابھی تو دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو، چنانچہ وہ اترے اور ستو گ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2352]
فوائد ومسائل:
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔
بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔
حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔

(2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔

(3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2352