صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
31. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ»:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں بغیر گواہی کے کسی کو سنگسار کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا۔
حدیث نمبر: 5310
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّهُ ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ، كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَجَاءَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ فَلَاعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا. قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ فَقَالَ: لَا، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ. قَالَ أَبُو صَالِحٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ: آدَمَ خَدِلًا.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لعان کا ذکر ہوا اور عاصم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں کوئی بات کہی (کہ میں اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو وہیں قتل کر دوں) اور چلے گئے، پھر ان کی قوم کے ایک صحابی (عویمر رضی اللہ عنہ) ان کے پاس آئے یہ شکایت لے کر کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آج یہ ابتلاء میری اسی بات کی وجہ سے ہوا ہے (جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہی تھی) پھر وہ انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ واقعہ بتایا جس میں ملوث اس صحابی نے اپنی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت والے (پتلے دبلے) اور سیدھے بال والے تھے اور جس کے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ (تنہائی میں) پایا، وہ گھٹے ہوئے جسم کا، گندمی اور بھرے گوشت والا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس معاملہ کو صاف کر دے۔ چنانچہ اس عورت نے بچہ اسی مرد کی شکل کا جنا جس کے متعلق شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا۔ ایک شاگرد نے مجلس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا یہی وہ عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت کے سنگسار کر سکتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں (یہ جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس عورت کے متعلق فرمایا تھا جس کی بدکاری اسلام کے زمانہ میں کھل گئی تھی۔ ابوصالح اور عبداللہ بن یوسف نے اس حدیث میں بجائے «خدلا‏.‏» کے کسرہ کے ساتھ دال «خدلا‏.‏» روایت کیا ہے لیکن معنی وہی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2067  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا: پھر یہ آیت اتری: «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2067]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حضرت ہلال بن امیہ نے اللہ پر توکل کیا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا تو اللہ نے ان کو بری کردیا۔
اس سے صحابہ کرام کا ایمان اور اللہ کی ذات پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  پانچویں گواہی کے الفاظ پہلی چارگواہیوں سے مختلف ہیں۔
اس کا مقصد ضمیر کو بیدار کرنا ہے تاکہ فریقین میں سے جو غلطی پر ہے، وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلے اور دنیا کی سزا قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔

(3)
  پانچویں قسم واجب کرنے والی ہے، یعنی واقعی اللہ کی لعنت اوراس کے غضب کی موجب ہے، لہٰذا یہ سمجھ کر قسم کھائیں کہ جھوٹے پر واقعی اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا نزول ہوجائے گا۔

(4)
  قوم کی محبت و عصبیت انسان کو بڑے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس محبت کو شریعت کی حدود کے اندر رکھا جائے۔

(5)
  بعض اوقات انسان کسی دنیوی مفاد کے لیے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جب کہ اس مفاد کا حصول یقینی نہیں۔
اس عورت نے خاندان کو بدنامی سے بچانے کےلیے جھوٹی قسم کھائی لیکن رسول اللہﷺ کی بیان کردہ علامت کے مطابق بچہ پیدا ہونے سے وہ غلطی ظاہر ہوگئی جس کو چھپانے کےلیے اس نے اللہ کی غضب کو قبول کیا تھا۔

(6)
  اس قسم کی صورت حال میں بچے کی شکل و شباہت جرم کو ثابت کرتی ہے لیکن اگر قانونی پوریشن ایسی ہوکہ سزا نہ مل سکتی ہو تو جج قانون کی حد سے تجاوز نہیں کرسکتا۔

(7)
ارشاد نبوی:
میرا اس عورت سے معاملہ (دوسرا)
ہوتا۔
یعنی اس عورت کا جرم دار ہونا تو یقینی ہے لیکن چونکہ لعان کے بعد سزا نہیں دی جا سکتی، اس لیے اسے چھوڑ دیا ہے، ورنہ اسے ضروررجم کروا دیا جاتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2067   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1050  
´تہمت زنا کی حد کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسلام میں لعان کا پہلا واقعہ شریک بن سحماء کا تھا۔ ان پر ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ اس حدیث کی تخریج ابویعلٰی نے کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اور بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1050»
تخریج:
«أخرجه أبو يعلي:5 /207، حديث:2824، وحديث ابن عباس، أخرجه البخاري، التفسير، حديث:4747.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت شریک بن سحماء رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ انصار کے حلیف قبیلے بنو بَلي سے تھے۔
ہلال بن امیہ نے ان پر اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی۔
ایک قول کے مطابق یہ اپنے والد کے ہمراہ غزوۂ احد میں حاضر تھے اور یہ براء بن مالک کے مادری بھائی تھے۔
ان کے والد کا نام عبدہ بن مُعَتِّب تھا اور سحماء ان کی والدہ کا نام تھا۔
«حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا تعلق انصار کے قبیلۂاوس کی شاخ بنو واقف سے تھا۔
مشہور و معروف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔
قدیم الاسلام تھے۔
بنو واقف کے بتوں کو توڑا کرتے تھے۔
بدر و احد کے معرکوں میں شریک ہوئے۔
فتح مکہ کے دن بنو واقف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔
یہ ان تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے جو معرکۂتبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے‘ پھر پچاس روز کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1050   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3179  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2255  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2255]
فوائد ومسائل:
قاضی کو چاہیے کہ موقع بموقع فریقین کو قسم کے اقدام سے باز رہنے کی تلقین کرے کیونکہ دنیا کی عار اور یہاں کی سزا تو عارضی ہے مگر اللہ کی لعنت اور غضب دائمی ہے۔
لاحول ولا قوة إلا بالله۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2255   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5310  
5310. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس لعان کا ذکر کیا گیا تو سیدنا عاصم بن عدی ؓ نے اس کے متعلق بات کی، پھر وہ چلے گئے پھر ان کی قوم کا ایک مرد کو پایا ہے۔ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: آج یہ آزمائش میری ہی ایک بات کو وجہ سے پیش آئی ہے چنانچہ وہ اس آدمی کو لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاجر ہوئے اور آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو مکروہ حالت میں پایا ہے۔ وہ آدمی خود زرد رنگ۔ کم گوشت والا اور سیدھے بالوں والا تھا اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے وہ بڑی بڑی پنڈلیوں والا، گندمی رنگ اور بھرے گوشت والا تھا، نبی ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! یہ معاملہ واضح فرما دے۔ چنانچہ اس عورت نے اس مرد کے مشابہ بچہ جنم دیا جس کے متعلق اس کے شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے بیوی کے ساتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5310]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علامات و نشانات دیکھنے کے باوجود اس عورت کو رجم نہیں کیا کیونکہ اس نے لعان کر کے اپنا دفاع کر لیا تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر عورت کی طرف سے لعان عمل میں آ جاتا ہے تو اس پر کسی قسم کی سزا لاگو نہیں ہوگی کیونکہ گواہوں کے بغیر کسی پر حد لگانا شریعت میں جائز نہیں، ہاں، اگر اعتراف کر لیتی تو ضرور اسے رجم کیا جاتا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر اس عورت نے سرمگیں آنکھوں والا، موٹے موٹے سرینوں والا اور گوشت سے بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ جنم دیا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے جس کے متعلق اس کے خاوند نے نشاندہی کی تھی کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، چنانچہ عورت نے انھی اوصاف کے مطابق بچہ جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو میں اسے ضرور سزادیتا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4747، و فتح الباري: 572/9) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے معنی بیان کیے ہیں کہ اگر لعان نہ ہوتا جس نے اس عورت سے حد کو دور کر دیا ہے تو میں ضرور اس پر حد قائم کرتا کیونکہ وہ شبہ ظاہر ہو چکا ہے جس کے متعلق عورت پر الزام لگایا گیا تھا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5310