صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
40. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ} :
باب: اللہ کا یہ فرمانا کہ ”مطلقہ عورتیں اپنے کو تین طہر یا تین حیض تک روکے رکھیں“۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ فِيمَنْ تَزَوَّجَ فِي الْعِدَّةِ فَحَاضَتْ عِنْدَهُ ثَلَاثَ حِيَضٍ بَانَتْ مِنَ الْأَوَّلِ وَلَا تَحْتَسِبُ بِهِ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: تَحْتَسِبُ وَهَذَا أَحَبُّ إِلَى سُفْيَانَ يَعْنِي قَوْلَ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: يُقَالُ: أَقْرَأَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا دَنَا حَيْضُهَا وَأَقْرَأَتْ إِذَا دَنَا طُهْرُهَا، وَيُقَالُ: مَا قَرَأَتْ بِسَلًى قَطُّ إِذَا لَمْ تَجْمَعْ وَلَدًا فِي بَطْنِهَا".
‏‏‏‏ اور ابراہیم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے کسی عورت سے عدت ہی میں نکاح کر لیا اور پھر وہ اس کے پاس تین حیض کی مدت گزرنے تک رہی کہ اس کے بعد وہ پہلے ہی شوہر سے جدا ہو گی۔ (اور یہ صرف اس کی عدت سمجھی جائے گی) دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہو گا لیکن زہری نے کہا کہ اسی میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار بھی ہو گا، یہی یعنی زہری کا قول سفیان کو زیادہ پسند تھا۔ معمر نے کہا کہ «أقرأت المرأة» اس وقت بولتے ہیں جب عورت کا حیض قریب ہو۔ اسی طرح «أقرأت» اس وقت بھی بولتے ہیں جب عورت کا طہر قریب ہو، جب کسی عورت کے پیٹ میں کبھی کوئی حمل نہ ہوا ہو تو اس کے لیے عرب کہتے ہیں «ما قرأت بسلى قط» یعنی اس کو کبھی پیٹ نہیں رہا۔