صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
41. بَابُ قِصَّةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ:
باب: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ۔
وَقَوْلِ اللَّهِ: وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا سورة الطلاق آية 1 أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ: بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا سورة الطلاق آية 1 - 7.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتے رہو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدود سے بڑھے گا، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تجھے خبر نہیں شاید کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ان مطلقات کو اپنی حیثیت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے انہیں تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ حمل والیاں ہوں تو انہیں خرچ بھی دیتے رہو۔ ان کے حمل کے پیدا ہونے تک۔ آخر آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد «بعد عسر يسرا‏» تک۔
حدیث نمبر: 5321
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ،" أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا"، قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الحَكَمِ: إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر (جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو۔ جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑتا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا)۔ مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5321  
5321. قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمن بن حکم کی بیٹی کو طلاق دے دی تو عبدالرحمن اپنی بیٹی کو وہاں سے لے گئے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے مروان بن حکم کو، جو مدینہ طیبہ کا گورنر تھا، پیغام بھیجا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو واپس اس کے گھر بھیج دو۔ مروان نے جواب دیا کہ اس کا باپ عبدالرحمن مجھ پر غالب آ گیا ہے(میری بات نہیں مانتا)، نیز کہا کہ آپ کو فاطمہ بنت قیس‬ ؓ ک‬ی خبر نہیں پہنچی؟ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جواب دیا: اگر تو فاطمہ بنت قیس‬ ؓ ک‬ا واقعہ ذکر نہ کرے تو تجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ مروان بن حکم نے کہا: اگر آپ كے نزدیک یہ باہمی کشیدگی کی وجہ سے ایسا ہوا تو یہاں بھی یہی وجہ کار فرما ہے کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کشیدگی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5321]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے کیوں دلیل لیتے ہو، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اس گھر سے نکل جانا ایک عذر کی وجہ سے تھا۔
کوئی کہتا ہے کہ وہ گھر خوفناک تھا، کوئی کہتا ہے فاطمہ بد زبان عورت تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5321