صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ -- کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
50. بَابُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا} إِلَى قَوْلِهِ: {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} :
باب: اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اللہ تعالیٰ کے فرمان «بما تعملون خبير» تک، یعنی وفات کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5344
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ" وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ: كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً، إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ سورة البقرة آية 240"، فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا زَعَمَ ذَلِكَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهَا وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ: فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ سورة البقرة آية 234، قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ، فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَلَا سُكْنَى لَهَا.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبل بن عباد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت کریمہ «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ کے متعلق کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے گھر والوں کے پاس گزاری جاتی تھی، پہلے واجب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف‏» الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان پر لازم ہے کہ) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک (گھر سے) نہ نکالی جائیں لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اس باب میں جسے وہ (بیویاں) اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوہ کے لیے سات مہینے بیس دن سال بھر میں سے وصیت قرار دی۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق وہیں ٹھہری رہے اور اگر چاہے (چار مہینے دس دن کی عدت) پوری کر کے وہاں سے چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم‏» تک یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ البتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ کا یہی منشا ہے۔ پس عدت تو جیسی کہ پہلے تھی، اب بھی اس پر واجب ہے۔ ابن ابی نجیح نے اسے مجاہد سے بیان کیا اور عطاء نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس پہلی آیت نے بیوہ کو خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ کر دیا، اس لیے اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے اور (اسی طرح اس آیت نے) اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج‏» یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ (کو بھی منسوخ کر دیا ہے)۔ عطاء نے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے یہاں ہی عدت گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فلا جناح عليكم فيما فعلن‏» الخ، یعنی پس تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں، جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ عطاء نے کہا کہ اس کے بعد میراث کا حکم نازل ہوا اور اس نے مکان کے حکم کو منسوخ کر دیا۔ پس وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس کے لیے (شوہر کی طرف سے) مکان کا انتظام نہیں ہو گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5344  
5344. امام مجاہد سے روایت ہے انہوں نے اس آیت کریمہ: جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ کی تفسیر میں کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے اہل خانہ کے پاس گزاری جاتی تھی یہ ضروری امر تھا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: اور جو لوگ میں سے فوت ہو جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نکالا جائے ہاں، اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے سات ماہ بیس دن سال پورا کرنے کے لیے وصیت میں شمار کیے ہیں۔ بیوی اگر چاہے تو وصیت کے مطابق ٹھہری رہے اور اگر چاہے تو گھر سےچلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد: انہیں نکالا نہ جائے اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ کے یہی معنیٰ ہیں عدت کے ایام تو اس پر واجب ہیں جیسا کہ مجاہد سے منقول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5344]
حدیث حاشیہ:
عام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی مدت کی آیت منسوخ ہے اورچارمہینے دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہوا تھا پھر اللہ نے اسے کم کر کے چار مہینے اور دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری۔
اگر عورت سات مہینے بیس دن یا ایک سال پورا ہونے تک اپنی سسرال میں رہنا چاہے تو سسرال والے اسے نکال نہیں سکتے۔
''غیر إخراج'' کا یہی مطلب ہے۔
یہ مذہب خاص مجاہد کا ہے۔
انہوں نے یہ خیال کیا کہ ایک سال کی عدت کا حکم بعد میں اترا ہے اور چار مہینے دس دن کا پہلے اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ناسخ منسوخ سے پہلے اترے۔
اس لیے انہوں نے دونوں آیتوں میں یوں جمع کیا۔
باقی تمام مفسرین کا یہ قول ہے کہ ایک سال کی عدت کی آیت منسوخ ہے اور چار مہینے دس دن کی عدت کی آیت اس کی ناسخ ہے اور پہلے ایک سال کی عدت کا حکم ہوا تھا پھر اللہ نے اسے کم کر کے چار مہینے دس دن رکھا اور دوسری آیت اتاری یعنی اربعۃ ''اشھر وعشرا'' والی آیت۔
اب عورت خواہ سسرال میں رہے، خواہ اپنے میکے میں۔
اسی طرح تین طلاق کے خاوند کے گھر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
خاوند کے گھر میں عدت پوری کرنا اس وقت عورت پر واجب ہے، جب طلاق رجعی ہو کیونکہ خاوند کے رجوع کرنے کی امید ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5344   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5344  
5344. امام مجاہد سے روایت ہے انہوں نے اس آیت کریمہ: جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ کی تفسیر میں کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے اہل خانہ کے پاس گزاری جاتی تھی یہ ضروری امر تھا، پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: اور جو لوگ میں سے فوت ہو جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نکالا جائے ہاں، اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے سات ماہ بیس دن سال پورا کرنے کے لیے وصیت میں شمار کیے ہیں۔ بیوی اگر چاہے تو وصیت کے مطابق ٹھہری رہے اور اگر چاہے تو گھر سےچلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد: انہیں نکالا نہ جائے اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ کے یہی معنیٰ ہیں عدت کے ایام تو اس پر واجب ہیں جیسا کہ مجاہد سے منقول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5344]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مجاہد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارنے کا حکم پہلے نازل ہوا تھا کہ وہ یہ عدت خاوند کے گھر والوں کے پاس گزارے اور ایسا کرنا واجب تھا، پھر دوسری آیت نازل ہوئی جس میں ایک سال عدت گزارنے کے متعلق حکم تھا، اب سال پورا کرنے کے لیے سات ماہ بیس دن وصیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے خاوند کے گھر میں گزارے اگر چاہے تو اپنے میکے جا کر ان کو پورا کرے۔
ان کے نزدیک ناسخ، منسوخ سے پہلے نازل نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے دونوں کو جمع کرنے کی یہ صورت بیان کی ہے جبکہ عام مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک سال عدت گزارنے پر مشتمل آیت کریمہ منسوخ ہے اور چار ماہ دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے۔
ابن بطال نے کہا ہے کہ کسی مفسر نے آیات مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی اور نہ کسی فقیہ نے یہ کہا ہے بلکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ سال والی آیت منسوخ ہے۔
اور رہائش بھی عدت کے تابع ہے۔
جب چار ماہ دس دن کی عدت سے سال بھر کی عدت منسوخ ہو گئی تو رہائش کے متعلق خاوند کی ذمے داری بھی منسوخ ہو گئی۔
(فتح الباري: 611/9) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے اور وہ اسی مکان میں عدت گزارے جہاں وہ شوہر کے ساتھ مقیم تھی یا جہاں اسے خاوند کے متعلق وفات کی اطلاع ملی جیسا کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند فوت ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی مکان نہیں چھوڑا۔
آپ نے فرمایا:
تم اپنے میکے جا سکتی ہو ابھی وہ حجرے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور فرمایا:
تم اپنے پہلے مکان ہی میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔
چنانچہ انہوں نے چار ماہ دس دن کی عدت اسی سابقہ مکان میں پوری کی۔
(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2300)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی حتی کہ ایام عدت پورے ہو جائیں۔
(مسند أحمد: 370/6) (3)
بعض اہل علم حدیث کے ان الفاظ سے عورت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایام عدت وہیں گزارے جہاں اسے خاوند کی وفات کے متعلق اطلاع ملی ہو، خواہ وہ کسی کے گھر بطور مہمان ٹھہری ہو، اس طرح کی بے جا پابندی شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔
بہرحال اس عورت کو اپنے خاوند کے گھر عدت کے ایام گزارنے ہوں گے، البتہ اس حکم سے درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں:
٭ میاں بیوی کرائے کے مکان میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔
خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے ذرائع محدود ہو گئے یا مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا یا اپنے مکان میں عزیز و اقارب نے اتنا تنگ کیا کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہو گئے تو وہ کسی دوسرے مکان میں عدت گزار سکتی ہے۔
٭ میاں بیوی کسی دوسرے ملک میں تھے۔
بیوی اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے اپنے ملک آئی تو دوسرے ملک میں اس کا خاوند فوت ہو گیا۔
اب ویزے وغیرہ کا مسئلہ بن گیا تو وہ اپنے ملک میں اپنے والدین کے ہاں عدت گزار سکتی ہے۔
٭ عورت خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی، اسی حالت میں اس کا خاوند فوت ہو گیا تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ چار ماہ دس دن اسی مقام پر گزارے بلکہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا وہ اس کے ساتھ عدت کے ایام گزارتی رہے گی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5344