صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
1. بَابُ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} :
باب: اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”مسلمانو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے“۔
حدیث نمبر: 5375
وَعَنْ أَبي حَازِمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَصَابَنِي جَهْدٌ شَدِيدٌ، فَلَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَاسْتَقْرَأْتُهُ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، فَدَخَلَ دَارَهُ وَفَتَحَهَا عَلَيَّ، فَمَشَيْتُ غَيْرَ بَعِيدٍ، فَخَرَرْتُ لِوَجْهِي مِنَ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِي، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَأَقَامَنِي وَعَرَفَ الَّذِي بِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَحْلِهِ، فَأَمَرَ لِي بِعُسٍّ مِنْ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: عُدْ يَا أَبَا هِرٍّ، فَعُدْتُ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ: عُدْ، فَعُدْتُ فَشَرِبْتُ حَتَّى اسْتَوَى بَطْنِي فَصَارَ كَالْقِدْحِ، قَالَ: فَلَقِيتُ عُمَرَ وَذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِي، وَقُلْتُ لَهُ: فَوَلَّى اللَّهُ ذَلِكَ مَنْ كَانَ أَحَقَّ بِهِ مِنْكَ يَا عُمَرُ، وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَقْرَأْتُكَ الْآيَةَ وَلَأَنَا أَقْرَأُ لَهَا مِنْكَ، قَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَأَنْ أَكُونَ أَدْخَلْتُكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي مِثْلُ حُمْرِ النَّعَمِ".
ابوحازم سے روایت ہے کہ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (بیان کیا کہ فاقہ کی وجہ سے) میں سخت مشقت میں مبتلا تھا، پھر میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی اور پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد میں بہت دور تک چلتا رہا۔ آخر مشقت اور بھوک کی وجہ سے میں منہ کے بل گر پڑا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سر کے پاس کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! میں نے کہا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! تیار ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا ایک بڑا پیالہ منگوایا۔ میں نے اس میں دودھ پیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوبارہ پیو (ابوہریرہ!) میں نے دوبارہ پیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور پیو۔ میں نے اور پیا۔ یہاں تک کہ میرا پیٹ بھی پیالہ کی طرح بھرپور ہو گیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اے عمر! اللہ تعالیٰ نے اسے اس ذات کے ذریعہ پورا کرا دیا، جو آپ سے زیادہ مستحق تھی۔ اللہ کی قسم! میں نے تم سے آیت پوچھی تھی حالانکہ میں اسے تم سے بھی زیادہ بہتر طریقہ پر پڑھ سکتا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر میں نے تم کو اپنے گھر میں داخل کر لیا ہوتا اور تم کو کھانا کھلا دیتا تو لال لال (عمدہ) اونٹ ملنے سے بھی زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5375  
5375. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ایک دن سخت بھوک لگی تو میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھنا چاہی انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی، پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں تھوڑی دور گیا تو بھوک کی وجہ سے منہ کے بل کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لبیك و سعد یك۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کر دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کے پیالے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس میں سے کچھ دودھ پیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! دوبارہ پیو۔ میں نے دوبارہ پیا۔ آپ نے فرمایا: اور پیو۔ میں نے خوب پیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بے پر تیر کی طرح سیدھا ہو گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں سیدنا عمر بن خطاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5375]
حدیث حاشیہ:
مگر افسوس ہے کہ میں اس وقت تمہارا مطلب نہیں سمجھا اور تم نے بھی کچھ نہیں کہا۔
میں یہی سمجھا کہ تم ایک آیت بھول گئے ہو اس کو مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ پیٹ بھر کر کھانا پینا درست ہے کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔
حدیث کی گہرائی میں جا کر مطلب نکالنا غایت کمال تھا جو اللہ تعالیٰ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا اللہ تعالیٰ ان چمگادڑوں پررحم کرے جو آفتاب عالم تاب کو نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے اسکے وجود ہی کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔
لبئس ما کا نوا یصنعون۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5375   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5375  
5375. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ایک دن سخت بھوک لگی تو میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھنا چاہی انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی، پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں تھوڑی دور گیا تو بھوک کی وجہ سے منہ کے بل کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لبیك و سعد یك۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کر دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کے پیالے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس میں سے کچھ دودھ پیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! دوبارہ پیو۔ میں نے دوبارہ پیا۔ آپ نے فرمایا: اور پیو۔ میں نے خوب پیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بے پر تیر کی طرح سیدھا ہو گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں سیدنا عمر بن خطاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5375]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت اس لیے پوچھی تھی کہ میں بھوکا ہوں اور وہ مجھے کچھ کھانے کو دیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا حال معلوم نہ کر سکے بلکہ وہ آیت پڑھ کر آگے تشریف لے گئے۔
بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ افسوس کرنے لگے کہ میں اس وقت تمہارا مطلب نہ سمجھ سکا اور تم نے بھی اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔
میں نے یہی سمجھا تھا کہ تم وہ آیت بھول گئے ہو اور وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔
(2)
مذکورہ تینوں احادیث میں اگرچہ انواع طعام کا ذکر نہیں ہے، تاہم طعام کے احوال اور اس کی صفات کا ذکر ضرور ہے، عنوان کے ساتھ ان احادیث کی یہی مطابقت ہے۔
(فتح الباري: 645/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5375