صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
3. بَابُ الأَكْلِ مِمَّا يَلِيهِ:
باب: برتن میں سامنے سے کھانا۔
حدیث نمبر: 5378
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَبِي نُعَيْمٍ، قَالَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ وَمَعَهُ رَبِيبُهُ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، ان سے ابونعیم وہب بن کیسان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا، آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ اور اپنے سامنے سے کھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5378  
5378. ابو نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ آپ کے ہمراہ آپ ہی کے زیر پرورش عمر بن ابی سلمہ ؓ بھی تھے توآپ نے ان سے فرمایا: بسم اللہ پڑھو اور اپنے اگے سے کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5378]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ برتن کے چاروں طرف سے بوٹیاں اٹھا کر کھانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیٹے! اپنے سامنے سے کھاؤ۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5270 (2022) (2)
بہرحال کھانے کے آداب سے ہے کہ انسان اپنے سامنے سے کھائے ہاں، اگر کھانے مختلف قسم کے ہوں تو جہاں سے چاہے اپنا من پسند کھانا کھا سکتا ہے۔
مذکورہ پابندی صرف اس صورت میں ہے جب کھانا ایک ہی طرح کا ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5378