صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
6. بَابُ مَنْ أَكَلَ حَتَّى شَبِعَ:
باب: پیٹ بھر کر کھانا کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5381
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ:" لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: قُومُوا، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو طَلْحَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَكِ؟ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ أَذِنَ لِعَشَرَةٍ، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے (یعنی انس رضی اللہ عنہ کے) کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ بیان کیا کہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے انس! تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہو گا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کھانے کے ساتھ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا: ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا اس پر بولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (استقبال کے لیے) نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا روٹی لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا چورا کر لیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا کہ ان دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اور شکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلا لو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی (80) صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 626  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا بیان`
«. . . 119- وبه: أنه سمع أنس بن مالك يقول: قال أبو طلحة لأم سليم: لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا أعرف فيه الجوع، هل عندك من شيء؟ فقالت: نعم. فأخرجت أقراصا من شعير، ثم أخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه، ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا فى المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: آرسلك أبو طلحة؟ فقلت: نعم. فقال: لطعام؟ فقلت: نعم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه: قوموا. قال: فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فأخبرته. فقال أبو طلحة: يا أم سليم، قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم. فقالت: الله ورسوله أعلم. قال: فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة حتى دخلا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلم يا أم سليم ما عندك. فأتت بذلك الخبز. قال: فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت، وعصرت عليه أم سليم عكة لها فآدمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول. ثم قال: إئذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال: إئذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم قال: إئذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم أذن لعشرة حتى أكل القوم كلهم وشبعوا، والقوم سبعون رجلا أو ثمانون رجلا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں (اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ) نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: ابوطلحہ نے(اپنی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کمزور سنی ہے اس میں بھوک کا اثر محسوس کرتا ہوں، کیا تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! پھر انہوں نے جوَ کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنا ایک دوپٹہ لے کر اس میں روٹیاں اوپر نیچے ڈھانپ دیں پھر انہیں میری بغل میں دبا دیا اور بعض حصے کو میری چادر بنا دیا پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد لوگ بیٹھے ہیں، میں ان کے قریب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کھانے کے لئے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اٹھو (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا:! پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آگے آگے چلا حتی ٰ کہ جا کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لئے کھانا نہیں ہے اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں، پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُم سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو تو وہ روٹیاں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان روٹیوں کے ٹکڑے کر کے چُوری بنائی گئی اور اُم سلیم نے اس پر ایک برتن سے گھی نچوڑا تو یہ چُوری نما سالن بن گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ نے چاہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آدمیوں کو لے آؤ۔ دس آ دمی بلائے گئے حتیٰ کہ انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آدمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی بلائے حتیٰ کہ سارے آدمیوں نے جو ستر یا اسی تھے خوب پیٹ پھر کر سیر ہو کر کھانا کھایا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 626]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5381، و مسلم 2040، من حديث مالك به]، [من رواية يحيٰ بن يحيٰ]، [من رواية يحيٰ و جاء فى الاصل: هَلُمَّ]

تفقه:
① یہ روایت بھی دلائل نبوت میں سے ہے اور عظیم الشان معجزہ تھا کہ تھوڑا سا کھانا ستر (70) اشخاص نے سیر ہو کر کھایا۔
② وصال کے روزوں کی تخصیص کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات بھوک بھی لگ جاتی تھی۔ وصال کی حالت میں اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا تھا جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے۔
③ اہل ایمان کو ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے رہنا چاہئے تاکہ محبت میں اضافہ ہوتا رہے۔
④ وہ دوست جس پر کُلی اعتماد ہوتا ہو، اس کی دعوتِ طعام پر بعض اوقات ایسے افراد کو ساتھ لے جانا بھی جائز ہے جنھیں دعوت نہیں ملی لیکن یاد رہے کہ کسی بھائی کو ذہنی، اخلاقی یا مالی تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔
⑤ صحابہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ جانتے (علم رکھتے) ہیں لیکن واضح رہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم الغیب سمجھنے کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ عالم الغیب ہونا اللہ کی صفت خاصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم الغیب نہ ہونے کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ اسی کتاب میں موجود ہیں۔
⑥ اگر مکان میں مناسب جگہ نہ ہو تو گروہ در گروہ کھانا کھلانا جائز ہے۔
⑦ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے بہت مشکلات میں زندگی گزاری ہے۔ کئی کئی دن کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ملتا تھا مگر پھر بھی صابر وشاکر تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
⑧ کوشش کرکے مہمان اور مدعو شخص کو بہترین کھانا کھلانا چاہئے۔
⑨ مہمان اور دوست کا گھر سے باہر نکل کر استقبال کرنا جائز ہے۔
⑩ گھر والے کو اپنے گھر میں داخلے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور اسی طرح اس کے بلانے پر آنے والوں کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ چند مزید فوائد بھی پیش خدمت ہیں۔
➊ کھانے پر کھانے سے پہلے برکت کی دعا کرنا جائز ہے۔
➋ جس دوست پر کُلی اعتماد ہو تو آدمی اس کے گھر میں ضروری حکم چلا سکتا ہے۔
➌ اگر کبھی کبھار کھانا ملے تو پیٹ بھر کر کھانا جائز ہے وگرنا اس کے تین حصے کرنے چاہئیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا اس پر ہر وقت سرِ تسلیم خم کرنا چاہئے چاہے ہماری اپنی محدود سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
➎ کھانے کی تمام اقسام مثلاً چُوری وغیرہ سب مباح ہیں سوائے اس کھانے کے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 119   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5381  
5381. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کھانے کے لیے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5381]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سمجھ گئی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اتنے لوگوں کو ہمراہ تشریف لا رہے ہیں تو کھانے میں ضرور آپ کی دعا سے بر کت ہوگی۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے چپ سے کہا کہ یا رسول اللہ! گھر میں اتنے آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا کہ چلو اندر گھر میں چلو اللہ برکت کرے گا۔
چنانچہ یہی ہوا، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کویہاں اس لیے لائے کہ اس میں سب کا شکم سیر ہو کر کھانا مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5381   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5381  
5381. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کھانے کے لیے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5381]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کو ثابت کیا ہے اور یہ حدیث اپنے مقصود میں واضح ہے، اگرچہ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لوگ دنیا میں پیٹ بھر کے کھائیں گے وہ آخرت میں لمبی بھوک سے دوچار ہوں گے۔
(سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3550، 3551، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343)
اس سے مراد وہ پیٹ بھرنا ہے جو انسان کو سست کر دے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ کا باعث بنے اور جس سے معدے میں گرانی آ جائے۔
(فتح الباري: 654/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5381