صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانوں کے بیان میں
59. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”پھر جب تم کھانا کھا چکو تو دعوت والے کے گھر سے اٹھ کر چلے جاؤ“۔
حدیث نمبر: 5466
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسًا، قَالَ:" أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالْحِجَابِ كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ، أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِينَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَلَسَ مَعَهُ رِجَالٌ بَعْدَ مَا قَامَ الْقَوْمُ حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَشَى وَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا، فَرَجَعْتُ مَعَهُ فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ مَكَانَهُمْ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ فَإِذَا هُمْ قَدْ قَامُوا، فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا وَأُنْزِلَ الْحِجَابُ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا موقع تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر) جا چکے تھے۔ آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اور چلتے رہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر بیٹھے رہ گئے تھے) جا چکے ہوں گے (اس لیے آپ واپس تشریف لائے) میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ پھر واپس آ گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکایا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1908  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کا اتنا بڑا ولیمہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا بڑا آپ نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ولیمہ میں ایک بکری ذبح کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1908]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
ان کی والدہ حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ سے کیا تھا لیکن نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی۔
عدت گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے وحی کے ذریعے سے کردیا۔

(2)
صحابی نے ولیمہ کے موقع پر ایک بکری ذبح کرنے کو پرتکلف اور شان دار ولیمہ قرار دیا ہے حالانکہ عرب گوشت کھانے کے عادی تھے۔
وہ بیک وقت کئی کئی اونٹ ذبح کر کے کھاتے اور کھلاتے تھے۔
اور اس ماحول میں ایک بکری بہت معمولی چیز تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کے لیے تکلفات سے پرہیز فرمایا اور عام طور پر ولیمہ گوشت کے بغیر ہی کردیا گیا۔

(3)
ولیمے کے لیے قرض لینا اور خواہ مخواہ زیر بار ہونا درست نہیں۔
آسانی سے جس قدر اہتمام ہو سکے کرلیا جائے۔

(4)
نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں جمع ہو کر دعوتیں اڑانا کسی حدیث میں مذکور نہیں۔

یہ محض ایک رسم ہے جس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1908   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3217  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3217]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ﴾ إلى ﴿إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا﴾  (الأحزاب: 53) (یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو،
الاّ یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے،
لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو،
بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہو جاؤ،
...اورجب تم امہات المومنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو ...)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3217   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5466  
5466. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش‬ ؓ س‬ے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5466]
حدیث حاشیہ:
سورۃ احزاب کا بیشتر حصہ ایسے ہی آداب سے متعلق نازل ہوا ہے جن کا ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں اس غرض سے لائے ہیں کہ اس میں نقل کردہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کا ادب بیان فرمایا کہ جب کھانے سے فارغ ہوں تو اٹھ چلا جانا چاہیئے، وہیں جمے رہنا اور صاحب خانہ کو ایذا دینا گناہ ہے۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5466   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5466  
5466. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش‬ ؓ س‬ے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5466]
حدیث حاشیہ:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کے آداب میں سے ایک ادب بیان کیا ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد اٹھ کر چلے جانا چاہیے، وہاں باتوں میں مصروف رہنا، اہل خانہ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔
اگر وہ خود روکنا چاہیں تو اور بات ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5466