صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
17. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ»:
باب: اس بارے میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جانور کو اللہ ہی کے نام پر ذبح کرنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 5500
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: ضَحَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُضْحِيَةً ذَاتَ يَوْمٍ، فَإِذَا أُنَاسٌ قَدْ ذَبَحُوا ضَحَايَاهُمْ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدْ ذَبَحُوا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب بن سفیان بجلی نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلے ہی ذبح کر لی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہو، اسے چاہیئے کہ اس کی جگہ دوسری ذبح کرے اور جس نے نماز پڑھنے سے پہلے نہ ذبح کی ہو اسے چاہیئے کہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1162  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔ (بخاری، مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1162»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔
اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔
اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔
مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔
3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔
داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔
اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔
احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔
پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔
۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5500  
5500. سیدنا جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلےہی قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر ڈالی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلےہی ذبح کرلی ہیں تو آپ نے فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہواسے اس کی جگہ دوسری قربانی ذبح کرنی ہوگی اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح نہیں کی اسے چاہیئے کہ وہ نماز کے بعد اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5500]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جو لوگ قربانی کا جانور نماز سے پہلے ادھر ادھر لے جاکر ذبح کر دیتے ہیں وہ قربانی نہیں صرف ایک معمولی گوشت بن کر رہ جاتا ہے۔
قربانی وہی ہے جو نماز عید کے بعد ذبح کی جائے اور بس۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5500  
5500. سیدنا جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلےہی قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر ڈالی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلےہی ذبح کرلی ہیں تو آپ نے فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہواسے اس کی جگہ دوسری قربانی ذبح کرنی ہوگی اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح نہیں کی اسے چاہیئے کہ وہ نماز کے بعد اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5500]
حدیث حاشیہ:
(1)
قربانی، نماز عید کے بعد ہے۔
نماز سے پہلے جو جانور ذبح کیا جائے گا وہ قربانی نہیں بلکہ عام گوشت کا جانور ہے۔
قربانی وہی ہے جو نماز عید کے بعد کی جائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ ذبح اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتا ہے اور بسم اللہ کے بغیر ذبح جائز نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔
(الأنعام: 121)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے ذبح کرنے کا مطلب نماز کے بعد قربانی ذبح کرنے کی اجازت دینا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ کے نام سے ذبح کرنے کا حکم دیا ہو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے بسم اللہ پڑھنا شرط ہے، ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو الگ بات ہے جس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
(فتح الباري: 780/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5500