صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
26. بَابُ الدَّجَاجِ:
باب: مرغی کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5518
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ، فَأُتِيَ بِطَعَامٍ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ جَالِسٌ أَحْمَرُ فَلَمْ يَدْنُ مِنْ طَعَامِهِ، قَالَ: ادْنُ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ أَكَلَ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْكَ أَوْ أُحَدِّثْكَ، إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، قَالَ: مَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبٍ مِنْ إِبِلٍ، فَقَالَ:" أَيْنَ الْأَشْعَرِيُّونَ أَيْنَ الْأَشْعَرِيُّونَ؟" قَالَ: فَأَعْطَانَا خَمْسَ ذَوْدٍ غُرَّ الذُّرَى فَلَبِثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، فَرَجَعْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا اسْتَحْمَلْنَاكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، فَظَنَنَّا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ هُوَ حَمَلَكُمْ، إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب بن ابی تمیمہ نے بیان کیا، ان سے قاسم نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ہم میں اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارہ تھا پھر کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا، حاضرین میں ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ کھانے میں شریک نہیں ہوا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ تم بھی شریک ہو جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تھا اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے اور میں نے قسم کھا لی ہے کہ اب اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شریک ہو جاؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ خفا تھے آپ صدقہ کے اونٹ تقسیم فرما رہے تھے۔ اسی وقت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ کا سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ آپ ہمیں سواری کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اشعری کہاں ہیں، اشعری کہاں ہیں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ سفید کوہان والے اونٹ دے دیئے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے لیکن پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہیں اور اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غافل رکھا تو ہم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے آپ سے سواری کے اونٹ ایک مرتبہ مانگے تھے تو آپ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم کھا لی تھی ہمارے خیال میں آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں سواری کے لیے جانور عطا فرمایا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کوئی قسم کھا لوں اور پھر بعد میں مجھ پر واضح ہو جائے کہ اس کے سوا دوسری چیز اس سے بہتر ہے اور پھر وہی میں نہ کروں جو بہتر ہے، میں قسم توڑ دوں گا اور وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دوں گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107  
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قسم کی تین قسمیں ہیں:

(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔

(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔

(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)

۔

(2)
  قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)

(3)
  ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔

(4)
  نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾  (البقرۃ، 2: 224)
اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔

(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5518  
5518. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5518]
حدیث حاشیہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا دلی مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر مرغی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔
مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو وہ اگر گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاءبھی بکثرت کھاتی ہے پس اس کی حلت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5518   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5518  
5518. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5518]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ اور مرغی کا گوشت کھاؤ، مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو، وہ اگر کبھی گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاء بھی بکثرت کھاتی ہے اس بنا پر اس کے حلال ہونے میں ذرا بھر شبہ نہیں ہے۔
اگرچہ ہمارے بعض اسلاف گندگی کھانے والی مرغی کو اپنے گھر تین دن تک خوراک کھلاتے، پھر اسے ذبح کر کے کھاتے تھے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 147/5، رقم: 24598)
بہرحال یہ ان کی احتیاط تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے حلال ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(فتح الباري: 802/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5518