مشكوة المصابيح
كتاب الآداب -- كتاب الآداب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ دنیا اور عورتوں سے خبردار
حدیث نمبر: 5145
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا بَعْدَ الْعَصْرِ فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا ذَكَرَهُ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ وَكَانَ فِيمَا قَالَ: «إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ» وَذَكَرَ: «إِنَّ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءً يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ فِي الدُّنْيَا وَلَا غَدْرَ أَكْبَرُ مِنْ غَدْرِ أَمِيرِ الْعَامَّةِ يُغْرَزُ لِوَاؤُهُ عِنْدَ اسْتِهِ» . قَالَ: «وَلَا يَمْنَعْنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ» وَفِي رِوَايَةٍ: «إِنْ رَأَى مُنْكَرًا أَنْ يُغَيِّرَهُ» فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ وَقَالَ: قَدْ رَأَيْنَاهُ فَمَنَعَتْنَا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ نَتَكَلَّمَ فِيهِ. ثُمَّ قَالَ: «أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَى طَبَقَاتٍ شَتَّى فَمنهمْ مَن يولَدُ مُؤمنا وَيحيى مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيحيى كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيحيى مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيحيى كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا» قَالَ: وَذَكَرَ الْغَضَبَ «فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ سَرِيعَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ فَإِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ بَطِيءَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ فَإِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى وَخِيَارُكُمْ مَنْ يَكُونُ بَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ وَشِرَارُكُمْ مَنْ يَكُونُ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ» . قَالَ: «اتَّقُوا الْغَضَبَ فَإِنَّهُ جَمْرَةٌ عَلَى قَلْبِ ابْنِ آدَمَ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى انْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ؟ وَحُمْرَةِ عَيْنَيْهِ؟ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَضْطَجِعْ وَلْيَتَلَبَّدْ بِالْأَرْضِ» قَالَ: وَذَكَرَ الدَّيْنَ فَقَالَ: «مِنْكُمْ مَنْ يَكُونُ حَسَنَ الْقَضَاءِ وَإِذَا كَانَ لَهُ أَفْحَشَ فِي الطَّلَبِ فإحداهُما بِالْأُخْرَى وَمِنْهُم مَن يكونُ سيِّءَ الْقَضَاءِ وَإِنْ كَانَ لَهُ أَجْمَلَ فِي الطَّلَبِ فَإِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى وَخِيَارُكُمْ مَنْ إِذَا كَانَ عَلَيْهِ الدَّيْنُ أَحْسَنَ الْقَضَاءِ وَإِنْ كَانَ لَهُ أَجْمَلَ فِي الطَّلَبِ وَشِرَارُكُمْ مَنْ إِذَا كَانَ عَلَيْهِ الدَّيْنُ أَسَاءَ الْقَضَاءَ وَإِنْ كَانَ لَهُ أَفْحَشَ فِي الطَّلَبِ» . حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ عَلَى رؤوسِ النَّخْلِ وَأَطْرَافِ الْحِيطَانِ فَقَالَ: «أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عصر کے بعد ہمیں خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے قیام قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات بیان فرمائے، کچھ لوگوں نے اسے یاد رکھا اور کچھ لوگوں نے اسے بھلا دیا، آپ کے خطاب میں یہ بھی تھا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا شیریں و شاداب ہے، بے شک اللہ تمہیں اس میں خلیفہ و جانشین بنانے والا ہے، وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، سن لو! دنیا سے بچو، اور عورتوں (کے فتنے) سے بچو۔ اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذکر فرمایا: روز قیامت ہر عہد شکن کے لیے، دنیا میں اس کی عہد شکنی کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا، اور امیر عامہ (صدر) کی عہد شکنی سے بڑھ کر کوئی عہد شکنی نہیں ہو گی، اس کا جھنڈا اس کی سرین پر نصب کیا جائے گا، اور لوگوں کا خوف تم میں سے کسی کو حق بات کہنے سے نہ روکے جبکہ وہ اسے جانتا ہو۔ ایک دوسری روایت میں ہے: اگر وہ کوئی برائی دیکھے، تو اسے روک دے لوگوں کا خوف اسے ایسا کرنے سے نہ روکے۔ چنانچہ (یہ بیان کر کے) ابوسعید رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور فرمایا: یقیناً ہم نے اس کو دیکھا لیکن لوگوں کے خوف نے ہمیں اس کے متعلق بات کرنے سے روک دیا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سن لو! آدم ؑ کی اولاد مختلف طبقات پر پیدا کی گئی، ان میں سے کوئی تو مومن پیدا کیا گیا، وہ اسی حالت میں زندہ رہا اور اسی حالت پر فوت ہوا، اور ان میں سے کچھ کو کافر پیدا کیا گیا، وہ حالت کفر پر زندہ رہے اور کافر ہی فوت ہوئے، اور ان میں سے کچھ مومن پیدا ہوتے ہیں، حالت ایمان پر زندہ رہتے ہیں اور حالت کفر پر فوت ہو جاتے ہیں، اور ان میں سے کچھ حالت کفر پر پیدا ہوتے ہیں، اسی حالت پر زندہ رہتے ہیں اور حالت ایمان پر فوت ہوتے ہیں۔ اور راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غصے کا ذکر فرمایا: ان میں سے کچھ کو جلد غصہ آ جاتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے، ان میں سے ایک (خصلت) دوسری (خصلت) کا بدل ہے، اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے یہ بھی ایک (خصلت) دوسری کا بدل ہے، اور تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جسے غصہ دیر سے آتا ہو اور جلد زائل ہوتا ہو، اور تم میں سے بدترین شخص وہ ہے جسے غصہ تو جلد آتا ہو جبکہ وہ زائل دیر سے ہوتا ہو۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غصے سے بچو، کیونکہ وہ ابن آدم کے دل پر ایک انگارہ ہے، کیا تم اس کی رگوں کے پھولنے اور اس کی آنکھوں کی سرخی کی طرف نہیں دیکھتے، جو شخص ایسی کیفیت محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے اور زمین کے ساتھ لگ جائے۔ راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرض کا ذکر کیا تو فرمایا: تم میں سے کوئی ادائیگی میں اچھا ہوتا ہے لیکن جب اس نے کسی سے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں سختی کرتا ہے، یہ (خصلت) دوسری کا بدل ہے، (تاہم یہ وصف قابل ستائش نہیں) کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ادائیگی میں برے ہوتے ہیں جبکہ وصولی میں اچھے ہوتے ہیں تو یہ بھی دوسری (خصلت) کا بدل ہے، (تاہم یہ وصف قابل ستائش نہیں) اور تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جب اس پر قرض ہو تو وہ اچھی طرح ادا کرتا ہے، اور جب اس نے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں اچھا ہوتا ہے، اور تم میں سے بدترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں برا ہو اور اگر اس نے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں سخت ہو۔ حتیٰ کہ جب دھوپ کھجور کے درختوں کی چوٹیوں اور دیواروں کی اطراف پر آ گئی تو فرمایا: سن لو! دنیا بس اتنی ہی باقی رہ گئی ہے جتنا آج کے دن کا یہ حصہ باقی رہ گیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2191 وقال: حسن)
٭ علي بن زيد بن جدعان ضعيف.»

قال الشيخ الألباني: ضَعِيف