صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
28. بَابُ لُحُومِ الْحُمُرِ الإِنْسِيَّةِ:
باب: پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 5528
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ جَاءٍ، فَقَالَ: أُكِلَتِ الْحُمُرُ، ثُمَّ جَاءَهُ جَاءٍ، فَقَالَ: أُكِلَتِ الْحُمُرُ، ثُمَّ جَاءَهُ جَاءٍ، فَقَالَ: أُفْنِيَتِ الْحُمُرُ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى فِي النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ، فَأُكْفِئَتِ الْقُدُورُ وَإِنَّهَا لَتَفُورُ بِاللَّحْمِ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھا لیا ہے پھر دوسرے صاحب آئے اور کہا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھا لیا ہے پھر تیسرے صاحب آئے اور کہا کہ گدھے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کرایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں چنانچہ اسی وقت ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ (گدھے کے) گوشت سے جوش مار رہی تھیں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 69  
´گدھے کے جوٹھے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی آیا اور اس نے کہا: اللہ اور اس کے رسول تم لوگوں کو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ ناپاک ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 69]
69۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ جنگ خیبر کی بات ہے جب مسلمانوں نے نبیٔ اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر اور غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے گدھے پکڑ کر ذبح کر لیے تھے بلکہ ان کا گوشت پکانا شروع کر دیا تھا۔
➋ امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید اس روایت کے الفاظ «إِنَّهَا رِجْسٌ» سے گدھے کے جوٹھے کے پلید ہونے پر استدلال کیا ہے، مگر جو اس کے جوٹھے کی طہارت کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اکثر گدھے کو بطور سواری استعمال کیا ہے، ظاہر ہے اس کا لعاب اور پسینہ وغیرہ کپڑوں کو لگتا ہو گا اور آپ نے کبھی بھی گدھے کے لعاب سے پرہیز کا حکم نہیں دیا اور یہی بات امت کے حق میں زیادہ بہتر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امت سے تنگی کو دور کرنے ہی کی کوشش کی ہے اور یسروا ولاتعسروا کی تلقین کرتے رہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 69   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5528  
5528. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی شخص آیا اور کہا کہ گدھے کھائے گئے ہیں پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی کہا کہ گدھے کھائے جا رہے ہیں۔ اتنے میں تیسرا آدمی آیا اور عرض کرنے لگا کہ گدھے تو ختم ہو گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے ایک منادی کے ذریعے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ پلید ہیں۔ یہ اعلان سن کر ہانڈیاں الٹ دی گئیں جبکہ وہ گوشت سے جوش مار رہی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5528]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں ممکن ہے کہ تین شخص علیحدہ علیحدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہوں یا ایک شخص بار بار حاضر خدمت ہوا ہو۔
جب پہلی مرتبہ کہا گیا کہ گدھے کھائے گئے ہیں تو آپ نے ادھر کوئی التفات نہ فرمایا تو دوسری دفعہ آپ سے گزارش کی گئی، بالآخر جب تیسری مرتبہ کہا گیا کہ گدھے تو ختم ہو گئے ہیں تو آپ نے گدھوں کے گوشت کی حرمت کا اعلان کر دیا۔
شاید پہلی یا دوسری مرتبہ کہتے وقت اس کی تحریم نازل نہ ہوئی ہو، اس لیے آپ خاموش رہے۔
آخر کار تیسری مرتبہ جب گزارش کی گئی تو اس کی تحریم بھی نازل ہو چکی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق اعلان کرا دیا۔
(2)
صحیح مسلم میں ہے کہ اعلان کرنے والے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھے۔
(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 5021 (1940)
سنن نسائی میں ہے کہ اعلان کرنے والے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔
(سنن النسائی، الصید والذبائح، حدیث: 4346)
شاید پہلے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا، پھر تفصیل کے ساتھ حضرت ابو طلحہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس کی حرمت سے آگاہ کیا ہو اور بتایا ہو کہ یہ نجس اور پلید ہیں۔
(فتح الباري: 810/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5528