صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ -- کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
34. بَابُ إِذَا وَقَعَتِ الْفَأْرَةُ فِي السَّمْنِ الْجَامِدِ أَوِ الذَّائِبِ:
باب: جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 5540
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَتْ:" سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَأْرَةٍ سَقَطَتْ فِي سَمْنٍ، فَقَالَ: أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا، وَكُلُوهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چوہے کا حکم پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو پھر باقی گھی کھا لو۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1798  
´گھی میں مری ہوئی چوہیا کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے اور جو کچھ چکنائی اس کے اردگرد ہے اسے پھینک دو ۱؎ اور (بچا ہوا) گھی کھا لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1798]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جمی ہوئی چیز ہو،
اور اگر سیال ہے تو پھر پورے کو پھینک دیاجائے گا۔

2؎:
معمر کی مذکورہ روایت مصنف عبد الرزاق کی ہے،
معمر ہی کی ایک روایت نسائی میں (رقم: 4265) میمونہ سے بھی ہے جس میں سیال اور غیر سیال کا فرق ابوہریرہ ہی کی روایت کی طرح ہے،
سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے اگرچہ یہ دونوں روایات متکلم فیہ ہیں،
لیکن ایک مجمل روایت ہی میں نسائی کا لفظ ہے سمن جامد (جماہوا گھی) اور یہ سند صحیح ہے،
بہر حال اگر صحیحین کی مجمل روایت ہی کو لیا جائے تو بھی ارد گرد اسی گھی کا ہوسکتا ہے جو جامد ہو،
سیال میں ارد گرد ہو ہی نہیں سکتا،
کیوں کہ چوہیا اس میں گھومتی رہے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1798   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3841  
´گھی میں چوہیا گر جائے تو کیا کیا جائے؟`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا: (جس جگہ گری ہے) اس کے آس پاس کا گھی نکال کر پھینک دو اور (باقی) کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3841]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ارد گرد کا گھی جہاں تک متاثر ہو اسے نکالنے کے بعد باقی گھی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اگلی دونوں احادیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی فرق بیان کیا گیا ہے۔
محدثین بلکہ امام بخاری نے آگے آنے والی حدیث کو کئی علل اور اوہام کے حوالے سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
لیکن اکثر فقہاء نے یہی کہا ہےکہ گھی جما ہوا ہو تو ارد گرد کے گھی سمیت چوہا نکال کر باقی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر پگھلا ہوا ہو تو اسے کھانے میں استعمال نہ کیا جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی یہی ہے۔
بعض محدثین نے گھی یاتیل چاہے پگھلا ہوا ہو۔
اس میں اردگرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
خوردنی تیل ملائشیا وغیرہ سے بڑے بڑے بحری جہازوں میں آتا ہے۔
ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل بسیرا بنا کر رہتے ہیں اگر ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
امام بخاری کی رائے بھی اس کی مؤید ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3841   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5540  
5540. سیدہ میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا: جو گھی میں گر گئی تھی تو آپ نے فرمایا: اسے (چوہیا کو) اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5540]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس کا حکم ایک ہے کہ متاثرہ گھی پھینک دیا جائے اور باقی کھا لیا جائے۔
اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ بھی جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق نہیں کرتے، نیز ان کے نزدیک گھی اور غیر گھی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
(2)
حدیث میں اگرچہ گھی کا ذکر ہے لیکن تیل وغیرہ کو اس پر قیاس کیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق کیا گیا ہے، الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر وہ جما ہوا ہو تو چوہیا اور اس کے ارد گرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر پگھلا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جاؤ۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ ان کی بیان کردہ احادیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔
اکثر محدثین نے گھی یا تیل، چاہے پگھلا ہوا ہو، اس میں ارد گرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
آج کل باہر سے کھانے والے تیل برآمد کیے جاتے ہیں۔
ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل طور پر رہائش پذیر رہتے ہیں۔
اگر بھرے ہوئے جہاز میں ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی کا فرق نہ کیا جائے۔
کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالا جائے، یہ ہر آدمی کی صوابدید پر موقوف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ اگر گھر جما ہوا نہ ہو تو تین چلو نکالے جائیں (مجمع الزوائد: 287/1، رقم: 1591)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 828/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5540